|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2024

نصیر عبداللہ
1975 کو وفاقی حکومت نے حیدر آباد سازش کیس کے الزام میں نیپ پر پابند عائد کرکے اس کی مرکزی قیادت کو حیدر آباد جیل میں قید کردیا۔ بلوچستان میں اجارہ داری کا نظام روزِاول سے نافذ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج یہ پارلیمانی ممبر کہلاتے ہیں اس وقت مجلسِ عام وخاص کے ممبر کہلاتے تھے۔ بلوچستان میں جب خانِ قلات کی حکومت تھی تو اس وقت موروثی شہنشایت نافذ تھی۔ بلوچستان میں حالات کا سدھار مجموعی نہیں بلکہ شخصی بنیادوں پر ہوتا رہا ہے۔ وفاق نے ہمیشہ سے بلوچ قوم پرست سیاست کو ختم کرنا چاہا کیونکہ کہیں نہ کہیں ریاست کے خیال میں قوم پرست جماعتیں ان کے خلاف ہیں۔ نیپ حکومت پر پابندی کا مقصد بلوچ قوم کو قوم پرست سیاست چھوڑ کر پہاڑوں پر بھیجنا تھا۔ ریاست نے بلوچ قوم پرست نمائندوں کے اختیارات کو محدود کرکے ان کی اتنی بے توقیری کردی ہے کہ آج ہر ذی شعور بلوچ قوم پرست سیاست و سیاسی رہنمائوں کے خلاف ہے اور ان سے کوئی امید نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بلوچستان میں اکثریت نے سیاست میں حصہ نہیں لیا اور ووٹ بھی کاسٹ نہیں کیا۔ کراچی لیٹریچر فیسٹول میں سمی دین سے ملاقات ہوئی، ان کا خیال ہے بلوچستان میں ریاستی مظالم کے بعد انکی سب سے بڑی کامیابی ہر عام و خاص بلوچ کے سامنے قوم پرستوں اور جعلی نمائندوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ آج ہر بلوچ یہی سوچ رکھتا ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں ان کے درد کی دوا نہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ڈی چوک میں الیکشن میں دھاندلی کے خلاف پہلے روز ہی کھڑے ہوکر چیخ چیخ کر بول سکتے ہیں وہیں جہاں بالاچ کی لاش ایک ہفتے تک رکھی ہوئی تھی اور لواحقین انصاف کا مطالبہ کررہے تھے وہاں آنا تو دور بالاچ کے متعلق بات تک نہیں کرسکے۔ دراصل وہ ریاست کی رٹ کو کراس کرنا نہیں چاہتے۔ بلوچستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قوم پرست سیاست کو دفنایا جارہا ہے۔ آج شہید غلام محمد کی سرزمینپر جمعیت اسلامی جیسی جماعت کے رہنما مولانا اکثریت سے جیت جاتے ہیں۔ اور پی پی جیسی پارٹی بلوچستان میں اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ دوبار وزیراعلیٰ بلوچستان رہنے والے عبدالقدوس بزنجو نے اپنے حلقے آواران کو جس نہج پر پہنچایا ہے اس سے آواران پتھروں کے زمانے کی عکاسی کرتا ہے۔ نیشنل پارٹی کے خیرجان بلوچ سے آواران کے لوگوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ آواران میں پہلا کام تعلیمی میدان میں انقلاب کی صورت میں کرے۔ آواران کے عوام کو عبدالقدوس بزنجو کی ہار کو یوم نجات کے طور پر منانا چاہئے۔