|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2024

آئی ایم ایف کی نئی قسط سے قبل سخت مطالبات سامنے آنے لگے ہیں جس سے عام لوگ بہت زیادہ متاثر ہونگے، اشیا پر ٹیکس، تنخواہ اور غیر تنخواہ دار بھی ٹیکس دینگے یعنی عام لوگوں پر بوجھ مزید بڑھے گا جو پہلے سے مہنگائی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں۔

عوام پہلے سے ٹیکسوں کے ملبے تلے ایسے دب کر رہ گئے ہیں کہ ان کا نکلنا مشکل ہوکر رہ گیا ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ خوراک، دوائوں، پیٹرولیم مصنوعات اور اسٹیشنری سمیت متعدد اشیاء پر 18فیصد جی ایس ٹی نافذ کریں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ایف بی آر کو کئی درجن اشیاء کو جنرل سیلز ٹیکس کی 18 فیصد کی معیاری شرح میں لانے کی سفارش کی ہے جن میں غیر پروسیس شدہ خوراک، اسٹیشنری اشیاء ، ادویات، پی او ایل مصنوعات اور دیگر شامل ہیں۔

آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا کہ جی ایس ٹی کی شرحوں کو معقول بنانے سے مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کا 1.3 فیصد محصول حاصل ہو سکتا ہے جو قومی خزانے میں 1300ارب روپے کے برابر ہے۔

بہرحال آئی ایم ایف کی جانب سے اگر بالواسطہ ٹیکس میں اضافے کے لیے جی ایس ٹی کا اتنا سخت اقدام نافذ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں اس سے مہنگائی سے متاثرہ عوام پرمزید بوجھ بڑھے گا۔ذرائع نے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ خطے اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں موازنہ کرنے والوں کی اوسط کے مطابق ایندھن پر بھی ٹیکس لگائے گا۔ آئی ایم ایف نے آٹھویں شیڈول کے تحت کم کردہ شرحوں کو ہٹانے اور تمام اشیاء کو معیاری جی ایس ٹی کی شرح پر لانے کا بھی مطالبہ کیا ہے سوائے ضروری اشیاء کے جیسے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور ضروری تعلیم اور صحت کی اشیا، جن پر 10 فیصد کی واحد کمی کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

ایک تو پہلے سے غریب عوام مہنگائی سے پریشان ہے ان کی آمدن اتنی نہیں کہ گھر کا چولہا جلا سکیں ،اب مزید ان پر ٹیکسز کے ڈرون حملے ہونگے تو ان کا جینا ہی محال ہوکر رہ جائے گا، وہ اپنی زندگی کا پہیہ نہیں چلا پائینگے ۔ایک تو ملک میں عام لوگوں کی دیہاڑی اور تنخواہ میں کوئی اضافہ ہوتا نہیں جبکہ اخراجات بڑھتے جارہے ہیں ،اس حوالے سے کوئی بھی موثر حکمت عملی موجود نہیں ہے ،ہر بوجھ عوام پر لادھ دیا جاتا ہے۔

آئی ایم ایف جو بھی شرائط رکھے گی حکومت تو اسے تسلیم کرے گی مگر عوام کو ریلیف فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے لہذا آئی ایم ایف سے بات چیت کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات اٹھائے ۔ نئی بننے والی حکومت کم از کم اپنے وعدوں کا پاس رکھے اورعوام کوسکھ کا سانس لینے دے۔