|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2024

بلوچستان کی عوام کے سال کے تین سو پینسٹھ دن احتجاجوں میں گزرتے ہیں۔ عید کی خوشیاں آئیں یا ماہ رمضان کے عبادت کے دن ، وہ اپنے گھروں میں چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ پورا سال جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور لواحقین سڑکوں پر افطاری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ان کی عید کی روایات اور خوشیاں پھیکی پڑنے لگتی ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں عید کی تیاریاں جاری رہتی ہیں۔ مارکیٹوں میں شاپنگ کے لئے رش لگا رہتا ہے۔
رواں رمضان کے بابرکت مہینہ میں بھی مکران ڈویژن کے مختلف مقامات پر احتجاج کا عمل جاری ہے۔ کوسٹل ہائی وے پر کارواٹ زیرو پوائنٹ، ہوشاپ ایم ایٹ، کرکی تجابان میں سی پیک، آپ درک ڈاکی بازار کے مقامات پر لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج دیکھنے کو ملا۔
پنجاب کے شہر سرگودھا سے جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم خدا داد کی بازیابی کے لئے ان کی فیملی نے ضلع کیچ کرکی تجابان کے مقام پر سی پیک شاہراہ بند کردیا۔ خدا داد ولد سراج احمد کو 8 مارچ 2024 کی رات 8:30 بجے ایک سفید رنگ کی کار میں ظفر اللہ چوک الرشید ہسپتال سرگودھا کے سامنے سے اٹھا لیا گیا تھا۔ وہ سرگودھا میڈیکل کالج میں پیتھالوجی لیب سائنسز کا طالب علم ہے۔
اسی طرح پسنی کے علاقے کپر کے رہائشی ذاکر ولد عبد الرزاق اور اس کے علاوہ لالا رفیق اور عظیم دوست کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کارواٹ زیرو پوائنٹ کو احتجاجاً بلاک کردیا۔ تاہم ڈپٹی کمیشنر گوادر کی یقین دھانی کے بعد احتجاج کو موخر کردیا گیا۔ جبکہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے شعیب احمد ولد بہرام اور بالاچ کے اغوا کے خلاف لواحقین نے “آپ دروک” کے مقام پر روڈ کو بلاک کردیا۔ دونوں نوجوانوں کو آسکانی بازار آپسر میں حراست میں لے کر لاپتہ کیاگیا۔
تیرہ مارچ 2024 کو مچھ اور کوئٹہ سے دو افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیاگیا۔ مچھ بولان سے گل زمان کرد نامی نوجوان کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا۔ مذکورہ نوجوان شیر زمان کرد کے بھائی ہیں جنہیں 12 فروری 2011 کو لاپتہ کیا گیاتھا اوربعد ازاں مارچ میں ان کی مسخ شدہ لاش کوئٹہ سے برآمد ہوئی تھی۔ دوسری جانب کوئٹہ کے علاقے کیچی بیگ سے آصف شاہوانی نامی ایک شخص کو لاپتہ کردیا گیا۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ جس کافوری طور پر تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بعض لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔ تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیاجائے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کئے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
پنجاب کے شہر سرگودھا سے جبری لاپتہ ہونے والے طالب علم خدا داد کی فیملی سخت ذہنی کرب کا شکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی مشکل میں اپنے بچے کو تعلیم کے حصول کے لئے پنجاب بھیجا ہے۔ تاکہ ان کا بچہ اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرسکے۔مگر بدقسمتی سے اس وقت بلوچ طلباء پنجاب میں کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ حکومت کی جانب سے”ویگو میں ڈالو” والی پالیسی کی وجہ سے بلوچ طلباء عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ طلباء میں مایوسی بڑھ رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک خاص پالیسی کے تحت بلوچ طلباء کو قلم اور کتاب سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس تعصبانہ رویہ کی وجہ سے طلباء ایک ڈر اورخوف کی کیفیت سے گزررہے ہیں۔
پنجاب بھر میں بلوچ طلباء غیر محفوظ ہوچکے ہیں ان کو کسی بھی وقت لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ان کی نسلی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلوچ طلباء کے لئے ” میرے پنڈ مت آؤ” والی پالیسی ہے۔ اگر یہی پالیسی ہے تو پھر ٹھیک ہے!۔ بقول ممتاز اِشتراکیت پسند انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے “ہم بھی دیکھیں گے!”۔
دوسری جانب پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی “غنڈہ گردی” عروج پر ہے۔ “جماعتی” بلوچ طلباء کو تنگ کرتے ہیں۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ بلوچ طلباء “جماعتی ٹھاہ” کے نعرے بھی نہیں لگاتے ہیں۔ ان تمام واقعات میں جمعیت کو انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں مکمل چھوٹ دی جاتی ہے۔
بلوچستان میں کئی لاپتہ افراد کی مائیں اپنے بیٹوں کی راہ تکتے اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوجاتی ہیں اور اپنے دلوں میں ایک “درد” لے کر اس دنیا سے چلی جاتی ہیں۔ یہی مائیں پریس کلبوں کے سامنے اور شاہراہوں پر احتجاج میں شریک ہوتی ہیں۔ دس مارچ 2024 کو پنجگور سے تعلق رکھنے والے لاپتہ نوجوان ظہیر بلوچ کی والدہ اس دنیا سے چل بسی۔ وہ اپنی اولاد کے لئے سسکتی رہی۔ ہر لمحہ گھر کے دروازے پر اس کی نظر ہوتی تھی کہ شاید ابھی میرا بیٹا “ظہیر جان” آجائے۔
ظہیر بلوچ کو 13 اپریل 2015 کو بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے اس وقت بس سے اتار کر لاپتہ کردیا گیا جب وہ پنجگور سے کراچی جارہے تھے۔ ایسی بے شمار مائیں تھیں جو اپنی اولادوں کے دیدار کئے بغیر اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندان اپنے پیاروں کی گمشدگی کے باعث عید نہیں مناسکتے کیونکہ ان کے کمانے والوں کو لاپتہ کردیا گیاہے جس کی وجہ سے وہ سخت مالی تنگ دستی کا شکار ہیں۔ ملک بھر میں عید کی تیاریاں زور و شورو سے جاری ہیں۔ لوگ خریداری اور عید کی شاپنگ میں مصروف ہیں۔ مگر وہ اپنے پیاروں کی قید میں ہونے کی وجہ سے عید کی تیاریوں سے بھی محروم ہوکر رہ گئے ہیں۔ کئی سالوں سے چھوٹی اور بڑی عید کے روز بھی لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ مائیں اپنی اولادوں کے بغیر کیسے عید میں نئے کپڑے پہن سکتی ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی جبری گمشدگی کے دوران عید کے جوڑے نہیں پہن سکتیں۔ اسی طرح ان لاپتہ افراد کی اہلیہ یا اولادکی عیدیں بھی پھیکی رہتی ہیں۔ شاید یہاں “جنگل کے قانون” سے بھی بدترین قانون نافذ ہے۔