|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2024

کوئٹہ :  تحریک تحفظ آئین پاکستان کا ایک اہم اجلاس بغرض احتجاجی تحریک زیر عنوان آئین کی بالادستی زیر صدارت پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ پشتونخوامیپ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں ملک میں آئین کی بالادستی ،انتخابات میں جمہور کے مینڈیٹ کی چوری ، عمران خان اور دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری ، چمن پرلت کی آئینی اور قانونی مطالبات ، مسنگ پرسنز ، دہشتگردی اوربنیادی ضروریات زندگی کے فقدان کے حوالے سے تفصیلی غور وخوص ہوا

اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے صوبے کے مختلف اضلاع میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے تحریک کے زیر اہتمام منعقد کیئے جائینگے اور 10مئی بروز جمعہ صوبے کے مختلف اضلاع میں عوامی احتجاج ہوگا۔

اجلاس میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال ، صوبائی سیکرٹری کبیر افغان، صوبائی ایگزیکٹوز اراکین گل خلجی ، حفیظ اللہ ترین ، حبیب الرحمن بازئی ، نظام عسکر ، ملک عمر کاکڑ، اقبال خان بٹے زئی ، رزاق خان ترین ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری ، آغا خالد شاہ ، محمد عامر شاہوانی ، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سینئر نائب صدر ایڈووکیٹ خورشید احمد ، سیکرٹری اطلاعات ماجد خان، کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے ضلعی صدر حاجی نور خان خلجی، نور اچکزئی اور کامل خان نے شرکت کی ۔

اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس وقت ملک میں چوری شدہ مینڈیٹ سے غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومت سٹیبلشمنٹ کی منشاء ومرضی سے قائم کی گئی ہے حقیقی الیکشن جیتنے والی پارٹیوں کو پارلیمان سے باہر کردیا گیا ہے بالخصوص الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی تحریک انصاف کو نہ صرف حکومت کی تشکیل سے محروم کیا گیا بلکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پابند سلاسل رکھاگیا ہے ۔

اور بلوچستان میں حالیہ الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی بولی 70سے 80ارب روپے میں لگائی گئی اور ہر وزیر ،مشیر اور محکموں کی الاٹمنٹ کیلئے کروڑوں روپے کی بولیاں دی گئی ہیں ۔ ان حالات میں عوام میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے سنجیدہ اور علمی شعور اجاگر کرنے کیلئے تحریک کے کارکنوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ عوام کو مینڈیٹ کی بدترین چوری سے آگاہ کریں اور اسمبلی سے لٹیروں ، چوروں ، زر اور ازور اور دھاندلی کے ذریعے آنیوالے نمائندوں کو عوامی جمہوری طاقت سے باہر کرے ۔ آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری ، ملک میں قانون کی حکمرانی کیلئے گھر گھر جاکر عوام کو متحرک کریں ۔ اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے میں جو صورتحال موجودہ سیٹ اپ نے مسلط کی ہے اس نے عوام سے زندگی چھیننے کی امید چھین لی ہے ۔ تجارت ، روزگار ، کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔

تجارتی مراکز ، مارکیٹیوں ، گوداموں پر کسٹم انٹیلی جنس کے غیر قانونی چھاپوں نے تاجر برادری کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور کاروباری سرگرمیاں مان پڑچکی ہے ۔ شہری پانی ، گیس ، بجلی کیلئے تڑپ رہے ہیں ۔

مختلف اضلاع بالخصوص کوئٹہ کے گلی کوچوں ، بازاروں میں بدامنی اور لاقانونیت کاراج ہے ۔

چوری اور ڈکیتیاں سرعام ہورہی ہے عوام کو سرومال کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ شرکاء نے چمن پرلت کے مطالبات کو برحق قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 7مہینے سے ہزاروں افراد چمن دھرنے میں بطور احتجاج شریک ہیں ۔ لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ ان کے مسائل سنیں اور چمن کے عوام کا واحد ذریعہ معاش باڈر ٹریڈکو بحال کیا جائے۔ کیونکہ چمن اور باڈر ایریا میں نہ زرعی زمینیں موجود ہیں اور نہ کارخانے ہیں ۔ دو ہاتھوں کی محنت مزدوری کے ذریعے عوام روزانہ کی بنیاد پر اپنے بال بچوں کی کفالت کرتے ہیں لیکن ان سے یہ حق چھین لیا گیا ہے اور گزشتہ روز چمن پرلت پرایف سی کی فائرنگ ،

پرلت کے شرکاء کو شہید وزخمی کرنے جیسے سفاکانہ اقدام سے بھی گریز نہیں کیا گیا جو انتہائی قابل مذمت عمل ہے ۔ اجلاس کے شرکاء نے چمن پرلت پر فائرنگ کرنیوالے افسروں واہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا ۔اجلاس کے شرکاء نے ملک اور صوبے میں مسنگ پرسن کے مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لیا

اور تمام لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی کیلئے تحریک کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کو ناگزیر قرار دیا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے استدعا کی کہ وہ لاپتہ افراد کے بنیادی انسانی اور آئینی مسئلے کو حل کرنے کیلئے قانونی اقدامات اٹھائیں ۔ اجلاس میں گوادرمیں غیر قانونی باڑ لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے شہریوں کے بنیادی انسانی آئینی حقوق کے خلاف قرار دیا ، باڑ کے ذریعے شہریوں کومحصور کرکے ان کے شہری حقوق کی پائمالی کی جارہی ہے۔

اجلاس میں صوبے کے اعلیٰ تعلیمی دانشگاہ ومادر علمی بلوچستان یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ آفیسران اور ملازمین کو گزشتہ کئی مہینوں سے اپنی تنخواہوں سے محروم رکھنے کو تعلیم دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ صوبے کے ہزاروں اساتذہ جن میں پی ایچ ڈی ، ایم فل کرنیوالے اساتذہ شامل ہیں

سڑکوں پر احتجاج پر مجبور کردیئے گئے ہیں اور تعلیمی اداروں میں تعلیمی نظام مفلوج ہوچکا ہے ۔ ملک کی مقتدر قوتیں ہماری تعلیمی نظام کی تباہی کی جانب توجہ دینے کی بجائے غیر جمہوری حکومتوں کے قیام میں مصروف عمل ہیں ۔

اجلاس میں نئی نسل میں دانستہ طور پر منشیات کے رجحان کو پروان چڑھانے اور حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں ، بازاروں ، گلی کوچوں میں انسداد منشیات مہم نہ چلانے کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ہمارے شہر اور گلی کوچے اب منشیات فروشوں کے اڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔

اجلاس میں تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل پارٹیوں کے کارکنوں سے اپیل کی گئی کہ وہ 10مئی کے احتجاجی مظاہروں اور جلسوں میں بھرپور انداز میں شرکت کرکے موجودہ غیر آئینی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *