|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2024

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل صمند بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ وطن دہائیوں سے جبر و استبداد کے سائے تلے رہا ہے۔

بلوچ عوام کی نسل کشی، جبری گمشدگیاں،اجتماعی سزا ساحل و وسائل کی لوٹ مار پچھلے دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ سیندک ، ریکوڈک، سوئی گیس سمیت بلوچ وسائل کو لوٹنے کیلئے ہمیشہ ہی سے بلوچستان میں کھٹ پتلی حکومتیں بناکر ان سے دستخط لیکر بلوچستان کی معدنیات کو بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر بیرونی کمپنیوں کے ہاں فروخت کیا گیا ہے۔تنظیم نے اپنے تحریک ” باتیل و پاسبان” باقاعدہ آغاز کر رہی ہے ۔

تحریک کا بنیادی مقصد گوادر شہر کو باڑلگا کر زندان میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے۔

بلوچ قوم کو یکجا کر کے بھر پور سیاسی موبلائزیشن موبیلائز کریں گے۔اگر اس منصوبے کو ختم نہیں کیا گیا تو ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری مقبول بلوچ، ، ایوب بلوچ، کبیر بلوچ، شعیب بلوچ و دیگر بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی معدنی دولت سے متعلق اسلام آبادنے استعماری پالیسی اپنا کر ایسے منصوبے ترتیب دیئے ہیں جن میں بلوچ عوام کی منشا شامل نہیں ہے۔ بی ایس او نے پہلے ہی دن سے ایسے منصوبوں کو یکسر مسترد کیا ہے۔

بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر ڈیپ سی پورٹ ہونے اور سٹریٹ آف ہارمونز کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تجارتی و دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچ دشمن قوتوںاور ان کے عالمی سہولت کاروں کا روز اول سے گوادر کے ساحل پر بری نظر رہی ہے۔ کبھی سی پیک جیسے استحصالی پراجیکٹس کے بہانے بلوچ عوام کو گوادر سے بیدخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی گوادر کو دبئی و سنگاپور بنانے کے کھوکھلے دعوے کر کے بلوچ عوام کو بیوقف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پچھلے چند سالوںمیں ریاست نے گوادر میں جاری بلوچ ساحل کی لوٹ مار کو مزید تقویت دینے کے لئے سیف سٹی نامی پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت گوادر شہر کو باڑ لگا کر باقی ماندہ بلوچستان سے علیحدہ کرنا اور مستقبل قریب میں وہاں پر موجود مقامی آبادی کو بیدخل کرنا ہے۔

گزشتہ عرصے جب گوادر شہر میں باڑ لگانے کی کوشش کی گئی تو بی ایس او نے بحیثیت ایک قومی ادارہ اس پراجیکٹ کے خلاف آواز اٹھائی، بلوچ عوام کو موبیلائز کیا اور سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر تحریک چلائی۔ بی ایس او اور بلوچ عوام کی شدید مزاحمت کے باعث سرکار کو یہ پراجیکٹ روکنا پڑا۔آج ایک بار پھر سیکیورٹی کے نام پر اس گھنانے پراجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس گھنائونے پراجیکٹ میں ریاستی ادارے، کھٹ پتلی بلوچستان حکومت اور گوادر سے سلیکٹ شدہ رکن صوبائی اسمبلی براہ راست شریک ہیں۔ بلوچ عوام کی سخت مزاحمت کے باوجود بھی ایک بار پھر اس منصوبے کو شروع کرنے کا مقصد یہ ہے ریاستی پالیسی سازعوامی آواز کو جبر سے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔گوادر کو باڑ لگانے کے خلاف مقامی آبادی بلوچ سیاسی پارٹیوں اور پوری قوم نے اپنا فیصلہ پہلے سے ہی سنا دیا ہے کہ ہم اس منصوبے کو قبول نہیں کرینگے۔

بی ایس او کا روز اول سے یہی بیانیہ رہا ہے کہ بلوچ قوم کی آواز کو جابرانہ پالیسیوں ، تشدد، اورنسل کشی سے ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن ریاست بلوچ کی آواز کو سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *