اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست سماعت میں عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا مگر سپریم کورٹ نے ایسانہیں کہاکہ تحریک انصاف کوانتخابات سےباہرکردیں اور نا ہی سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہرکرنا مقصد تھا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ حامد رضا نےکاغذات نامزدگی میں کہا ہے کہ میرا تعلق سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف سے ہے مگر دستاویزات میں کہا کہ تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں۔
سکندربشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حامدرضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کے لیے دیاگیا اور انہوں نے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اردو والے دستاویزات میں حامد رضا نے نہیں لکھا میں بطورآزادامیدوار انتخابات میں اترنا چاہ رہا ہوں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ حامدرضا خود کو آزادامیدوار نہ کہیں، حامدرضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفکیٹ تحریک انصاف کا دیا ہے مگر حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں، حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدر آمد کیا۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینےکے بعد کوئی امیدوار کہہ سکتاہے فلاں پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لیناچاہتاہوں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ریٹرننگ افسران کے پاس کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفکیٹ ہوتاہے؟ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے لیکن لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی پارٹی سے منسلک ہونےکا سرٹیفکیٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفکیٹ پی ٹی آئی نظریاتی اور ڈیکلریشن منسوخ پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیاکہتا ہے؟
اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ امیدوارکی ڈیکلریشن اورپارٹی کےساتھ وابستگی ظاہر ہوناضروری ہے، اگر ڈیکلریشن اور سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزاد امیدوار ہوتا ہے اور یہی آر اوزکے لیے سب سےآسان راستہ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوارکی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں، کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہرکرسکتےہیں؟ سرٹیفکیٹ میں تضاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کررہا ہے، جس پارٹی کا سرٹیفکیٹ لایا جارہا ہے اسی پارٹی کے امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جارہا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ایساہوا کہ امیدوارکہے میں ایک پارٹی کاہوں، سرٹیفکیٹ بھی دےلیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا ہو؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا آپ نے امیدواروں کو آزاد کیوں کہا جب خودکو وہ سیاسی جماعت سے وابستہ کہہ رہے تھے؟ کنفیوژن شروع ہوگئی کہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو امیدوار کیا کرسکتا ہے، پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائےگا انہوں نے کیا کیا ؟ آزاد امیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایاتھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوار کی بات نہیں بلکہ تحریک انصاف کی بات ہورہی ہے جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کوکہا آپ کو نشان نہیں ملےگا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا مگر سپریم کورٹ نے ایسانہیں کہاکہ تحریک انصاف کوانتخابات سےباہرکردیں اور نا ہی سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو انتخابات سے باہرکرنا مقصد ہرگز نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یا تو بلے کا نشان کسی اور کو دے دیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے محفوظ رکھاہوا ہے، آزاد امیدوار کو بھی بلے کا نشان مل سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے تشریح کوئی غلط کرے تو ہمارے پاس علاج نہیں، ایک امیدوار کو تحریک انصاف کا امیدوار کیوں نہیں سمجھتے؟ بات سمجھ نہیں آرہی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا کسی نگران حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنا نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ کیا نگران حکومت اتنی ہی آزاد ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صدرعارف علوی پی ٹی آئی کے ہوکرکیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے بڑی آسانی سےکہہ دیا نشان نہیں ملا تو آزاد امیدوار ڈیکلیئرکردیں، اتنابڑا فیصلہ کیسےکرلیا؟ کیا الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر بات کی یاریٹرننگ افسران کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہےکہ امیدوارکو آزاد ڈیکلیئرکردیں؟کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کسی کو آزاد امیدوار قرار دے سکتا ہے ؟ اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ امیدوارتو کہہ رہا ہے میں فلاں سیاسی جماعت سے منسلک ہوں، الیکشن کمیشن نے کہا کہ نہیں آپ آزادامیدوار ہیں، امیدوار نے تو نہیں کہا کہ میں آزادامیدوار ہوں، امیدوارتوکہہ رہاہے سیاسی جماعت سے منسلک ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کیا ایسا مانا جائے کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیاگیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی؟ بینچ تو کہہ رہاہے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چھوڑ دیں 80 سے زائد امیدواروں کو، 6 امیدواروں نے سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن ایک ہی پارٹی کا بھی دیا، 6 کو بھی الیکشن کمیشن نے آزادامیدوار قرار دےدیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی مزید سماعت یکم جولائی تک ملتوی کردی۔