|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے حکومت کا بھاری ٹیکس سے بھرپور بجٹ کی قومی اسمبلی سے منظوری کا عمل جاری ہے جب کہ جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے ترقی کرنے والا پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کوشاں ہے۔

حکومت نے 2 ہفتے قبل ٹیکس بھرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی تھی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسے شدید مہنگائی کا باعث قرار دیا۔

منگل کو پیپلز پارٹی جس نے ابتدائی طور پر بجٹ بحث کا بائیکاٹ کیا تھا، اس نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ دے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے اراکین نے بھی تنخواہ دار اور متوسط ​​طبقے کے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بجٹ سے ملک میں مزید مہنگائی ہوگی۔

قبل ازیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔

انہوں نے کہا کہ معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش

وزیر خزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کی والی اختراع ہے، میرے اوپر چھوڑا جائے تو یہ اختراع ملک میں فی الفور بند ہو جانی چاہیے، اس کے لیے ہم نے ایک بہت اہم قدم اٹھایا ہے، آئندہ سال کے لیے ہم نے نان فائلرز کے لیے ریٹس کو بہت بڑھادیا ہےتا کہ وہ تین چار بار سوچے کہ اس کو اس ملک میں ٹیکس ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی بجٹ ایوان میں پیش کردیا گیا، کمزور طبقات کے لیے جو بات ہوئی، اس میں کم از کم تنخواہ، یوٹیلٹی اسٹورز کی بات ہوئی ہے، ہم اس کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سے نجکاری کی بات کی جا رہی ہے، یہ دو سے تین سال کا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی، ریاستی اداروں میں اصلاحات، انرجی، پاور سیکٹر کی اصلاحات بھی مجموعی طور پر اس بجٹ کا حصہ ہیں اور یہ ہمارے مستقبل کے روڈ میپ کا حصہ ہیں۔

بعد ازاں پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی تجویز قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دی گئی۔

وزیر خزانہ نے فنانس بل میں ترامیم ایوان میں پیش کیں، پیٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں اضافے کی ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی۔

اراکین اسمبلی کی تنخواہوں، مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور

قومی اسمبلی نے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی، پیپلزپارٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی مراعات بڑھانے سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کی، ارکان پارلیمنٹ تنخواہ و مرات ایکٹ میں ترمیم فنانس بل کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کی منظوری کے بعد اراکین اسمبلی کا سفری الاؤنس 10روپے کلومیٹر سے بڑھا کر25روپے کر دیا گیا۔

ترمیم کے متن کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کے بچ جانے والے سالانہ فضائی ٹکٹس استعمال نہ ہونے پر منسوخ کرنے کی بجائے اگلے سال قابل استعمال ہوں گے، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کا اختیار وفاقی حکومت سے لیکر متعلقہ ایوان کی فنانس کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جب کہ اپوزیشن نے تنخواہوں اور مراعات سے متعلق پیپلز پارٹی کی ترمیم کی مخالفت کی۔

بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ

حکومت نے فنانس ترمیمی بل 2024 میں بین الاقوامی ایئرٹکٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ کردیا گیا۔

حکومت نے بین الاقوامی سفر پر اکانومی کلاس میں ایف ای ڈی فی ٹکٹ ساڑھے 12ہزار روپےکردی, مڈل ایسٹ، افریقہ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کی ایف ای ڈی فی ٹکٹ ایک لاکھ 5 ہزار روپے، یورپ کے لیے بزنس کلاس، فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2 لاکھ 10 ہزار روپے کردی۔

اس کے علاوہ امریکا کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 3لاکھ 50ہزار روپےکردی گئی ہے، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ کے لیے بزنس کلاس،فرسٹ کلاس،کلب کلاس کے لیے ایف ای ڈی فی ٹکٹ 2لاکھ 10ہزار روپے کردی گئی۔

چاروں صوبوں نے اس وقت کے صدر، وزیر اعظم کے ساتھ ملکر این ایف سی کی منظوری دی، وزیر اعظم

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2010 میں آخری این ایف سی ہوا تھا اور چاروں صوبوں نے مل کر اس وقت کے وزیر اعظم اور صدر کے ساتھ مل کر این ایف سی کی منظوری دی، اس وقت دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور اس سے سب سے زیادہ متاثر پمارے صوبے تھے لیکن خیبرپختونخوا کے فورسز اس وقت فرنٹ لائن پر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں خود اس میں شریک تھا اور یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں سب کام ہوا یہ آج تک چلا آرہا ہے اور ہمیں اس پر آج تک اعتراض نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 سے آج تک 590 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ملے دہشتگردی کے حوالے سے، اس صوبے میں بھی ہمارے بھائی اور بہنوں نے شہادتیں دی ہیں مگر اس ضمرے میں کسی کو پیسے نہیں ملے سوائے خیبرپختونخوا کے، میں ادب سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ 590 ارب روپے دیے گئے لیکن آج تک وہاں سی ٹی ڈی قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے یہ رقم مختص کی گئی تھی ایوارڈ میں، اس کو سوچیں کہ 590 ارب جاچکے مگر سی ٹی ڈی آج بھی نامکمل ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب میں چیف سیکریٹری کے حوالے سے جو اپوزیشن نے کہا تو ہم نے ان کو تین ناموں کا پینل دیا ہے خیبرپختونخوا میں لیکن ابھی تک انہوں نے فیصلہ نہیں دیا، ان کو نہیں پسند تو ہم اور کوئی پینل دے دیتے ہیں، خیبرپختونخوا کی عوام پاکستان کے بہادر عوام ہیں، یہ ایک خوبصورت صوبہ ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں قانون نہیں ہے، انٹیلیجنس ایجنسیاں ججز کو زدکوب کررہی ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ در حقیقت اقتصادی دہشت گردی ہے، اس بجٹ سے عوام کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، حکومتی بینچز میں بیٹھنے والے لوگ عوام کے معاشی قاتل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ درآمد کی گئی گندم حکومت کے فرنٹ مین نے رکھی ہوئی ہے، یہ سرکس کابینہ ہے، گندم اسکینڈل پر نیب کی تحقیقات ہونی چاہیے، آئل، آٹا، اشیا خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اس بجٹ کے ساتھ کوئی اقتصادی ترقی نہیں ہوگی۔

قبل ازیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو اس بات پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فنانس بل میں کوئی کفایت شعاری پلان نہیں رکھا گیا، اس حکومت میں سب سے زیادہ لوگ بیروزگاری رہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور ڈسکوز کی نجکاری کی بات کی جارہی ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس میں بھی یہ لوگ ترامیم کرنا چاہ رہے ہیں۔

بعد ازاں رہنما پی ٹی آئی زرتاج گل نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بنایا ہے، اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتی ہوں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *