|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تمام مطالبات پورے کرنے کے بعد پاکستان رواں ماہ 6 ارب ڈالر سے زائد کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج پر اسٹاف لیول معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان نے معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی بجٹ میں آمدنی کے چیلنجنگ اہداف مقرر کیے ہیں تاکہ آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری حاصل کرنے میں مدد مل سکے، حالانکہ نئے ٹیکس لگانے سے حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے بتایا کہ ہمیں امید ہے کہ اگلے تین سے چار ہفتوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

آئی ایم ایف پیکج کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے یہ معاہدہ 6 ارب ڈالر کا ہوگا، تاہم اس حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ کی توثیق اہم ہے۔

اس حوالے سے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس پر فوری کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 130 کھرب روپے (47 ارب ڈالر) کا ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے، جب کہ پچھلے سال کے 7.4 فیصد مالیاتی خسارہ (ملک کے کُل وسائل اور اخراجات کے درمیان فرق) تیزی سے کمی کے ساتھ 5.9 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

پرویز ملک نے کہا کہ مشکل اور غیر مقبول بجٹ پیش کرنے کا مقصد آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنا تھا، جب کہ آئی ایم ایف حکومتی اقدامات سے مطمئن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب کوئی حل طلب مسئلہ نہیں بچا، ہم نے بجٹ سمیت تمام پیشگی اقدامات مکمل کرلیے ہیں۔

دوسری جانب، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی منظوری حاصل کرسکتا ہے لیکن اس سے عوامی سطح پر حکومت کے لیے شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ اصلاحات مقامی معیشت کے لیے بوجھ ہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام سے استحکام حاصل ہوگا۔

نجی فرم میکرو اکنامک انسائٹس کے سربراہ اور ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی نے کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس میں زیادہ تاخیر ہوتی ہے تو مرکزی بینک کو عارضی طور پر درآمدات اور سرمائے کے کنٹرول کو دوبارہ بحال کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، جو ایک غیر یقینی صورتحال ہوگی اور اس سے نقصان ہوگا یہ ہوگا کہ ایکوئٹیز پر انحصار بڑھ جائے گا۔

واضح رہے کہ 12 جون کو بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ایس ای 100 انڈیکس میں تقریباً 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ آج بھی کے ایس ای-100 انڈیکس 601 پوائنٹس یا 0.76 فیصد بڑھ کر 80 ہزار 153 پر پہنچ گیا، جو گزشتہ روز 79 ہزار 552 پر بند ہوا تھا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *