پاور سیکٹر میں درآمدی فیول سے چلنے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز ) سے طویل المدتی معاہدے قومی خزانے اور عوام پر بھاری بوجھ بن چکے۔
پاکستان ایک طرف ایک ارب ڈالر کی قسط کیلئے بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے پر مجبور تو دوسری جانب آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدے ہر سال قوم کے اربوں ڈالر نگل رہے ہیں۔ صارفین سے وصول بجلی بلوں میں سے 80 فیصد رقم کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں نکل جاتی ہے۔
سماء کو دستیاب وزارت توانائی کی دستاویز کے مطابق 10 سال میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا ہوئے جو موجودہ شرح مبادلہ کے حساب سے 30 ارب مختلف ادوار کے شرح مبادلہ کے حساب سے اوسطاً 84 ارب 83 کروڑ ڈالر سے زائد بنتے ہیں۔ آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے اعداد و شمار 2013 سے 2024 تک کے ہیں۔
دستاویز کے مطابق 2013 سے 2024 کے دوران 10 برس میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب روپے کی کپیسٹی چارجز ادا کیے گئے۔ موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق یہ رقم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ مختلف ادوار کی اوسط شرح تبادلہ کے تحت 48 ارب 83 کروڑ ڈالر سے زائد بنتی ہے ۔ 10 سال میں آئی پی پیز کو توانائی کی قمیت 9ہزار 342ارب روپے ادا کی گئی۔
دستاویز کے مطابق 2013 میں میں ڈالر ریٹ 95روپے کے حساب سے ایک ارب 94کروڑ ڈالر سے زائد کپیسٹی چارجز دیئے گئے، 2014 میں 98 روپے کی شرح تبادلہ کے مطابق یہ رقم 2ارب 16 کروڑ ڈالر رہی، 2015 میں 100روپے ڈالر کے حساب سے 2ارب 46کروڑ ڈالر جبکہ 2016 کی شرح تبادلہ کے حساب سے 2ارب 61کروڑ ڈالر ادا کیے گئے۔
سن 2018 میں 125روپے کی شرح تبادلہ کے حساب سے آپی پی پیز نے 3ارب 74کروڑ ڈالر سے زائد بٹور لیے۔2019 میں ڈالر 152روپے کا ہوا تو 4ارب 22کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑ گئی۔ ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ کپیسٹی چارجز بھی بڑھ کر سال 2024 کیلئے 7 ارب 17 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔