|

وقتِ اشاعت :   July 12 – 2024

کوئٹہ: کوئٹہ میں مبینہ طور پر لاپتہ شخص ظہیراحمد کی بازیابی کیلئے اہل خانہ اور دیگر افراد کی ریلی کی ریڈ زون جانے کی کوشش میں پولیس سے مڈ بیٹر مظاہرین کے پولیس پر پتھراو کے نتیجے میں دو اہلکار زخمی ہوئے پولیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کے بعد مظاہرین منتشر ریلی کو روکنے کیلئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ دفعہ 144کی خلاف ورزی پر7 افراد کوگرفتار کیا گیا۔

ایس ایس پی کوئٹہ محمدبلوچ کے مطابق لاپتہ ظہیراحمد کی بازیابی کیلئے اہل خانہ اور دیگر افراد نے سریاب روڈ سے احتجاجی ریلی نکالی ریلی میں خواتین بھی شریک تھیں ،ریلی کے شرکا ریڈ زون میں وزیر اعلی سیکر یڑیٹ کے سامنے دھرنا دینا چاہتے تھے۔

پولیس اہلکاروں کی جانب سے ریلی کو سریاب روڈ پرروک دیا اس موقع پر شرکا ء کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیاجبکہ پولیس کے مطابق ریلی کے شرکا نے پولیس پرپتھراو کیا۔پولیس نے دفعہ 144کی خلاف ورزی پر7 افراد کو گرفتار کیا گیا سریاب روڈ سے منتشر ہونے والے افراد مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ریڈ زون کے قریب وائٹ روڈ پر پہنچنے تو پولیس کی جانب سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراو کیا گیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ پولیس کی دو گاڑیوں کو نقصان پہنچا پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے اور دھرنے کو سریاب روڈ پر منتقل کردیا ۔.

دریں اثناء ترجما ن حکو مت بلو چستان شا ہد رند نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کوئٹہ شہر میں ہونے والے احتجاج پر رد عمل دیتے ہوئے کہی،ا نہو ں نے کہا کہ آج مظاہر ین نے سر یاب روڈ سے کوئٹہ ریڈ زون کی طرف پیش قد می کی جس پر واپس نے مظاہر ین کو ریڈ زون کی طر ف جا نے سے روک نے کی کو شش کی تو مظاہر ین نے پو لیس پر پتھر ائو کیا۔

انہو ں نے کہا کہ ریڈ زون میں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ رجسٹری، گورنر ہاؤس ، وزیراعلیٰ ہاوس ، ججز اور اعلیٰ سول حکام کی رہائش گاہوں سمیت سول سیکرٹیریٹ بلوچستان کی عمارت بھی موجود ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں دفعہ 144نا فذ ہے لیکن اس کے باو جود بھی مظاہرین نے ریڈ زون میں گھسنے کی کو شش کی پو لیس نے مظاہر ین کے ساتھ انتہا ئی تحمل اور برداشت کا رویہ اختیار کیا۔ ترجما ن حکو مت بلو چستان نے کہا کہ ریڈ زون کے حو الے سے واضح پا لیسی ہے کہ ریڈزون میں کسی کو بھی داخلے کی اجاز ت نہیں۔

انہو ں نے کہا کہ کو ئی بھی شخص یہ گر وہ کسی بھی علا قے میں پر امن احتجاج کر نا چاہتا ہے تو ریاست کو اس پر کوئی اعتر اض نہیں ریڈ زون اور ریاستی اداروں کو یر غما ل بنا نے کی کسی کو بھی کوئی اجاز ت نہیں دی جا ئے گئی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے سماجی رابطے ویب سائٹ (ایکس) پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگی کے شکار ظہیر بلوچ کے اہل خانہ اور مظاہرین پر پولیس کا تشدد جاری ہے، جبکہ بیشتر پرامن مظاہرین گرفتار کیے جا چکے ہیں کوئٹہ میں جاری احتجاجی مظاہرے میں مسلسل تشدد کیا جارہا ہے

مجھ سمیت درجنوں مظایرین پر گولیاں برسائی جاریی ہے اور زخمی حالت میں ہے جن کو سول ہسپتال میں زہر علاج ہے اوپ سے پولیس نے تمام راستے بند کردیا ہے اور زخمی مظاہرین کو کس طرح ہسپتال لے جاہیں میں تمام بلوچ اعوام سے گزارش کرتی ہوں کوئٹہ کے تمام باشعور عوام سے گذارش کرتی ہوں کہ جلد از جلد پہنچیں ہم اپنے دھرنے کو واپس سریاب روڈ پر منتقل کردیا ہے میں پولیس اپنی فسطائیت اور تشدد کے عمل کو فوری طور پر روکے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا اس جدوجہد میں ساتھ دیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ظہیر بلوچ کی اہل خانہ کی جانب سے اس کے بازیابی کے لئے گذشتہ 11 دن سے سریاب روڈ کوئٹہ میں دھرنا جاری ہے۔

آج ایک ریلی نکالی گئی مگر کوئٹہ پولیس کے جانب سے میں پر امن مظاہرین، عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا گیا، اور پر امن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ۔یہ ریاست اس بات پر مکمل ایمان رکھتی ہے کہ ہر مسئلے کا حل تشدد ہے، پہلے اپنے ہی آئین و قانون کو پاؤں تلے روند کر شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کرتی ہے جبکہ ان کے اہل خانہ ان غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کرتے ہیں، آواز اٹھاتے ہے تو ریاست ڈائیلاگ کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کے بجائے خواتین اور بچوں پر بدترین تشدد کرتی ہے، انہیں گرفتار کرتی ہے۔ اگر یہ ریاست سمجھتی ہے کہ وہ جبر اور بربریت سے عوامی کی آواز کو دبانا سکتی ہے تو وہ تاریخ کے انتہائی غلط مقام پر کھڑی ہے۔ میں بلوچ قوم سمیت تمام لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ ظہیر بلوچ کے اہل خانہ اور عام مظاہرین پر اس تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بھر پور آواز اٹھائے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائے۔