پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ایک ادارہ بار بار پارلیمان میں مداخلت کر رہا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم ان کی جیت کو سراہتی ہے اور فخر کرتی ہے، میں پوری قوم اور ایوان کی طرف سے ارشد ندیم کو مبارکباد دیتا ہوں، انہوں نے اپنی محنت کے نتیجے میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا، ارشد ندیم اولمپکس میں ریکارڈ توڑ کر پاکستان کے لیے گولڈ میڈل لے کر آرہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوان کو موقع دیا جاتا ہے تو وہ فتحیاب ہوکر آتے ہیں، ہمیں ان پر فخر ہے، ایتھلیٹس کی اسپانسر شپ وغیر ہ کے حوالے سے ہماری متفق رائے ہونی چاہیے، ہمیں پاکستان بھر میں صلاحیت رکھنے والے بچوں کا ساتھ دینا چاہیے، لیاری کا ایک ایک بچہ فیفا کا ورلڈ کپ جیت سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ اگلے اولمپکس میں پاکستان کا ہر ایتھلیٹ گولڈ میڈل جیت کر آئے، تمام صوبائی وزیر کھیل کے ساتھ بیٹھ کر انڈاؤمنٹ فنڈ قائم کیا جائے اور اس فنڈ میں وفاق اور صوبے کچھ فنڈز رکھیں تاکہ ہم ان بچوں کو تلاش کر سکیں اور ان کو سپورٹ کر سکیں اور اگلے اولمپکس میں ہر صوبے سے ہم ارشد ندیم کو لاسکیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ایک دو مسائل پر بات کرنا ضروری ہے، پاکستان میں جتنی نوجوانوں میں صلاحیت ہے، لیبرز میں جتنی صلاحیت ہے، یہاں بہت مواقع ہیں، ہمارے پاس پہاڑوں سے سہائے تک سب کچھ ہے مگر اس ملک کی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ یہ جو شہر اسلام آباد بنا یہ شہر بنا اس لیے کہ ہمیں اسے کیپیٹل بنانا تھا اور یہاں بیٹھ کے ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے تھے، یہ بڑے بڑے ادارے، عمارتیں، اس شہر میں بیوروکریسی، سب سیاستدان موجود ہیں مگر جس کام کے لیےہم یہاں آتے ہیں وہ پورا نہیں کرتے، ہم سازشیں شروع کردیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل جو ملک میں چل رہا ہے، جیسی تقسیم سیاست میں موجود ہے وہ تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے جو عوام معاشی بحران سے گزر رہے ہیں ہم ان کی مدد نہیں کر پارہے، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ملک کے چاروں کونے میں مشکل ہوتی جارہی مگر ہم ایوان میں متفق رائے بھی نہیں بنا سکتے، دن رات ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، ہم ایک دوسرے کو چور غدار کہہ رہے ہیں، ہمیں کوئی طریقہ نکالنا پڑے گا کہ لڑائیاں لڑیں مگر سیاست کے دائرے میں رہ کر۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی کارکن بنگلہ دیش کے حالات غور سے دیکھ رہے ہیں، احتجاج وہاں فوج میں شہید ہونے والوں کے کوٹے کے اوپر شروع ہوا، اس کوٹے کو 2018 میں حسینہ واجد نے خود ختم کیا اور ان کی عدالت نے اسے بحال کیا اور احتجاج شروع ہوگیااور وہ رک نہ سکا اور سب نے دیکھا کہ کیسے حسینہ واجد کو اس وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا، اس کو دیکھ کر سب کو سوچنا چاہیے کہ ہمیں عوامی مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔
بلاول بھٹو کے مطابق پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں، اس وقت جو بحران ہے ادارے کے درمیان ایک فاصلہ نظر آرہا ہے اور یہ اس لیے بن رہا ہے کہ ایک ادارہ اس ادارے میں بار بار مداخلت کرتا ہے، عدلیہ کی تاریخ تو پورے ملک کے سامنے ہے، ارشد ندیم کی طرح ہماری عدلیہ نے بھی ورلڈ ریکارڈز توڑے ہیں، عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ نا صرف عدالت چلاتے ہیں بلکہ وہ تو ڈیم بھی بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدالتیں اتنی کامیاب ہیں کہ وہ انصاف بھی دلواتی ہیں، ڈیم بھی بناتی ہیں اور مہنگائی کا مقابلہ بھی کرتی ہے، وہ تو سموسے اور ٹماٹر کی قیمت بھی طر کرسکتے ہیں، عدلیہ ہماری اتنی زبردست ہے، پوری دنیا میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، ہمارے پاس اتنے بڑے سانحات ہوئے ہیں، بینظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، پاکستانیوں کی اپنی شکایتیں انصاف کی منتظر ہیں، ہمیں 3 دہائی تک انصاف کا انتظار کرنا پڑا پر آخر عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس حد تک انصاف دیا کہ ہاں ان کو صحیح انصاف نہیں دیا گیا اور ساتھ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہم تاریخ کو درست کرنے کے لیے کوئی واضح عمل نہیں اٹھاسکتے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جب ڈیم بنانے کی بات آتی ہے، ٹماٹر اور سموسے کی قیمت طے کرنے کی بات آتی ہے تو آئین و قانون پتا نہیں کہاں چلا جاتا ہے مگر جب انصاف کی بات آتی ہے، تو آئین و قانون کو لاگو کرنا ہمارے ملک میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے، پاکستان میں اسٹارم ان ٹی کپ کو پورا آئینی بحران بنایا جارہا ہے اور اس کے ذمہ دار ایوان نہیں بلکہ یہ عدالت کی طرف سے پیدا کیا گیا بحران ہے۔
بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا۔
بلاول نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف سے کوئی پوچھے کہ ان کے بلے کا نشان کیا میں نے چھینا تھا؟ کیا میں نے کہا کہ آپ کے الیکشنز غلط ہیں؟ عدالت نے کہا انہوں نے الیکشن میں دھاندلی جس کی وجہ سے نہ ان کو نشان ملے گا نہ یہ جماعت رہیں گے، اس فیصلے نے مرے ہوئے سیاسی جماعت کو، جن کی الیکشن کمپین کا نہ سر تھا نہ پیر اس کو اتنا فائدہ دیا کہ پوری جماعت متحرک ہوگئی، اور الیکشن کے آخری وقت میں اس فیصلے کے سیاسی اثرات بھی تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اب کہا جارہا ہے کہ اصل میں ہم نے یہ کہا ہی نہیں، اصل میں یہ ہے کہ جو انہوں نے مانگا بھی نہیں، جس کی آئین و قانون میں گنجائش نہیں ہم ایسا سیاسی فیصلہ دیتے ہیں کہ ان کو بس ایسے ہی سیٹیں بانٹ دیں جیسے ٹافی دیتے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک ملک آئین و قانون کے مطابق نہیں چلے گا، جب تک ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے تب تک جس مقصد کے لیے ہم یہاں بیٹھیں ہیں اس پر ہم عوام کی امیدوں کے مطابق چل نہیں سکیں گے، ہم الیکشن کے دوران سیاست کی جو گرما گرمی وہ ایسے پوائنٹ تک لے کر آجاتے ہیں کہ نفرت کی سیاست اب نظر آرہا ہے، اگر ہم بات کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم میں صلاحیت ہے کہ ہم متفق رائے بنا کر سیاست کو چلا سکیں گے۔
بعد ازاں سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کا کہنا تھا کہ ہماری کچھ روایات ہیں، اس ایوان میں یاسر عرفات، طیب اردوان آئے، حرم مکہ کے امام بھی یہاں تشریف لائے تھے اور آج مسجد نبوی ﷺ کے امام بھی یہاں موجود ہیں، ان روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اپنے سیاسی معاملات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے، سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر ہمیں گفتگو کرنی چاہیے، ان کی یہاں تشریف آوری ہمارے تعلقات کو مزید بہتر بنائے گا اور ہم بین الاقوامی برادری میں اسلامی دنیا کا سب سے پہلا دوست سمجھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج مسلمانوں کو درپیش مسائل میں پاکستان اور سعودی عرب اس سب کو عالمی سطح پر اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تنقید ہوتی رہے گی مگر آج یہ موقع نہیں، جو ماحول اس وقت ایوان میں پیدا ہوا میں اس پر اہنے مہمانوں سے معذرت کرتا ہوں اور ارشد ندیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
بعد ازاں قومی اسبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔