اسلام آباد: وزیر پٹرولیم نے کہا ہے کہ چند لوگوں کے اے سی کیلئے سب پر کپیسٹی چارجز لگتے ہیں۔
سینیٹر عمر فاروق کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پیٹرولیم کا اجلاس ہوا۔
ڈی جی گیس نے بریفنگ دی کہ حکومت کی 2005 پالیسی کے تحت ملک میں 1180 کیپٹو پاور پلانٹس لگائے گئے ہیں، جنہیں 358 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی ہے، 797 پاورپلانٹس سندھ میں ہیں، ان پلانٹس کا آڈٹ کرنے کی کوشش کی گئی پر کامیابی نہیں ہوئی۔
ڈی جی نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کی تجویز آئی کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گرڈ پر منتقل کیا جائے، تاہم پیٹرولیم ڈویژن نے کبھی پلانٹس کو بند کرنے کی کی بات نہیں کی، پاور ڈویژن نے آئی ایم ایف کو تجویز دی کہ ان کیپٹو پاور پلانٹس کو بند کروایا جائے، اس سے صنعتی شعبہ گرڈ سے بجلی لے گا اور بجلی گرڈ پر کیپسٹی چارجز ختم کرنے میں مدد ملے گی، اب کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس فراہمی پر کوئی سبسڈی فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔
وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ کراچی میں ایک انڈسٹریل ایریا میں 200 تک انڈسٹریل یونٹس ہیں، جن میں سے 10 سے 12 کے پاس کیپٹو پاور ہے، کچھ انڈسٹریز کے الیکٹرک سے 60 روپے کی بجلی لے رہی تھی، کچھ انڈسٹری کہیں سے مہنگی کہیں سے سستی بجلی خرید رہی تھی، اس طرح انڈسٹری میں کارٹلائزیشن بن چکی تھی، اس لیے انڈسٹری کیلئے لیول آف پلینگ فیلڈ کا ہونا ضروری ہے، پالیسی ایسی ہوکہ ہمارے بچوں کو لگے کہ ملک میں صرف 10 سے 15 سیٹھ نہیں ہیں۔
مصدق ملک نے کہا کہ چند لوگوں کے ایئر کنڈیشنر کے استعمال کیلئے سب پر کپیسٹی پیمنٹس لگانی پڑتی ہیں، ان ایئر کنڈیشنز کے لیے ہمیں سال بھر کپیسٹی ادا کرنا پڑتی ہے، اشرافیہ کی ڈیمانڈز کو اب کچھ کم کرنا پڑے گا، کچھ بوجھ تو اب اس اشرافیہ کو بھی اٹھانا پڑے گا، کیپسٹی پیمنٹ بینک کے قرضے کی قیمت ہے۔
وزیر پٹرولیم کا کہنا تھا کہ دنیا میں حکومتیں بجلی گیس نہیں خریدتیں لیکن یہاں حکومت خریدتی ہے، ہم پیٹرولیم سیکٹر کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرینگے، اگر عوام کا تحفظ نہ ہوا تو پھر ڈی ریگولیٹ نہیں کرینگے۔