حکومت نے سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا پر سیاسی یا مذہبی رائے کے اظہار سے ایک بار پھر روکنے کے ساتھ کسی بھی غیر مجاز سرکاری عہدیدار یا میڈیا کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے گریز کرنے کا کہا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام وفاقی وزارتوں،ڈویژنز اورصوبائی چیف سیکریٹریز کو مراسلہ ارسال کردیا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ واضح احکامات کے باوجود سرکاری ملازمین سوشل میڈیا پراظہار رائے اور بیانات جاری کرتے ہیں، سرکاری ملازمین گورنمنٹ سرونٹس رولز 1964کی پاسداری کریں۔
واضح رہے کہ 2021 میں حکومت نے بظاہر سرکاری معلومات اور دستاویزات لیک ہونے سے روکنے کے لیے تمام سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روک دیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے کو جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی سرکاری ملازم، حکومت کی اجازت کے بغیر کسی میڈیا پلیٹ فارم میں شرکت نہیں کر سکتا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ان ہدایات کا مقصد کسی سرکاری ادارے کی طرف سے حکومتی پالیسی پر عوامی ردعمل، خدمات میں بہتری کے لیے تجاویز لینے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے سوشل میڈیا کے تعمیری اور مثبت استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔
تاہم ایسے ادارے اس بات کی پابندی کریں گے کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جارحانہ، نامناسب اور قابل اعتراض تبصروں کو باقاعدگی سے ہٹایا جائے۔
نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کے تحت تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں، ان رولز کے تحت سرکاری ملازمین کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت مختلف میڈیا فارمز میں شرکت کی نگرانی کی جاتی ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ ’رولز کا رول 18 سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا نجی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکتا ہے‘۔
سرونٹس رولز کے رول 22 کا حوالہ دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا تھا کہ یہ سرکاری ملازم کو میڈیا پر یا عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا بیان یا رائے دینے سے روکتا ہے جس سے حکومت کی بدنامی کا خطرہ ہو۔
نوٹی فکیشن میں تمام سرکاری ملازمین کو خبردار کیا گیا تھا کہ کسی ایک یا زائد ہدایات کی خلاف ورزی بددیانتی کے مترادف ہوگی اور غفلت برتنے والے ایسے سرکاری ملازم کے خلاف سول سرونٹس (ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن) رولز 2020 کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
اس کے علاوہ ان حاضر سروس سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو اس سوشل میڈیا گروپ کے منتظم ہوں جس میں کسی طرح کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔
نوٹی فکیشن کے مطابق رولز 21، 25، 25 اے اور 25 بی سرکاری ملازمین کو پاکستان کے نظریے اور سالمیت یا کسی حکومتی پالیسی یا فیصلے کے خلاف خیالات کے اظہار سے روکتے ہیں۔
نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسے خیالات کے اظہار سے روکا گیا تھا جن سے قومی سلامتی یا دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو یا پبلک آرڈر، شائستگی یا اخلاقیات، توہین عدالت یا ہتک عزت یا کسی جرم کی ترغیب دینا یا فرقہ وارانہ عقائد کا پرچار کرنے سے کسی طرح کے نقصان کا اندیشہ ہو۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’سرکاری ملازمین مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے دوران بعض دفعہ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جو سرکاری طرز عمل کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہوتا‘۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سرکاری ملازمین کو مزید ہدایت دی تھی کہ وہ سرکاری معلومات کے غیر مجاز انکشاف میں ملوث نہ ہوں۔