|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2024

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آج ایجنسیوں کی بات ہو رہی ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 8 ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور تقریباً ساری رات کوہسار میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) والوں کے پاس بیٹھے رہے، ان سے پوچھیں وہ وہاں کیا کرنے گئے ہوئے تھے۔

قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل بلاول بھٹو نے کل ایک صائب اور اچھی تجویز پیش کی، اس پر اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی پارلیمنٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ کل اس کمیٹی کی کارروائی شروع ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے خصوصی کمیٹی پی ٹی آئی کے تحفظات حل کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

خواجہ آصف نے کہ 2 روز قبل جو واقعہ ہوا، اس کی سب نے مذمت کی، اس پر احتجاج بھی ہوا اور پی ٹی آئی کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت بھی دیا، کسی نے پارلیمنٹ پر حملے کی حمایت نہیں کی، جب کمیٹی میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ ہمیں مکے مارے گئے، وہاں یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، اس کے باعث کمیٹی بنانے کا جذبہ ختم ہوگیا، کل کی کارروائی نے اس کے جذبے کی نفی کردی۔

وزیر دفاع نے کہا کہ میں نے کمیٹی میں بھی اس پر احتجاج کیا، میں نے پارٹی کو بتا دیا میں اس کمیٹی کا ممبر نہیں رہنا چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹی اپنا بیانیہ بنانے کے لیے نہیں بنائی گئی، یہ کمیٹی اس ایوان کا بیانیہ بنانے اور اس کی عزت کے لیے بنائی گئی، اس کے تقدس اور قانون سازی کے لیے بنائی گئی، وہاں ایک لمبی داستان سنائی گئی جس کی پہلے ہی اس فلور پر مذمت ہوچکی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پارلیمنٹ لاجز سے اراکین کو اٹھایا گیا، کسی نے ہمارا ساتھ دیا، کسی نے مذمت کی، ان کے تحفظات پر الگ سے کمیٹی بنادیں، جب نواز شریف جیل میں تھے، سارا دن درخواست کرتے رہے کہ مجھے فون پر ان کی خیریت دریافت کرنے دی جائے، نہیں کرنی دی گئی، یہ انسانی معاملہ تھا جسے سیاست کے لیے استعمال کیا گیا، اتنی نفرت تھی کہ موت کو بھی سیاست کے لیے استعمال کیا گیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب کےلیے جو الفاظ استعمال کیے، میں ان کو دہرا نہیں سکتا، کیا کسی نے اس کی مذمت کی، کیا کسی نے آواز اٹھائی کہ نواز شریف پر کیا بیتا تھا، کسی نے آواز نہیں اٹھائی، آج یہ کہتے ہیں کہ سینے پر مکا مارا، گھسیٹاگیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ آج پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت کو ملا کر 2 سال ہوگئے حکومت کرتے ہوئے، ہم نے کسی کے خلاف نیب کو استعمال نہیں کیا، کوئی نیب کا کیس نہیں بنایا، اس وقت کا چیئرمین نیب جس طرح سے استعمال ہوا، میں کوئی غلط مثال نہیں دینا چاہتا، کیا یہ (رہنما پی ٹی آئی ) کبھی اس چیز کا اعتراف کریں گے، غلطی، غلطی ہے، میں کل بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو کہا کہ ضرور احتجاج کریں لیکن ذرا گزشتہ 4 برسوں پر بھی تو نظر دوڑائیں، اس میں آپ نے کیا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سابقہ دور حکومت میں پارلیمنٹ پر قبضہ رہا، پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر مملکت کی ٹیلی فون کال ریکارڈ پر موجود ہے، اس نے ٹیلی ویژن کی بلڈنگ جلائی، وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ ہوا، کیا ہم نے کبھی ایسا کیا، اپنے ماضی پر تھوڑی دیر کے لیے تو نظر دوڑائیں کہ وہ کیا رہا ہے، انہوں نے اپنے دور حکمرانی اور اپنی اپوزیشن کے دور میں کیا کیا ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے نئی روایات کو جنم دینا ہے تو ماضی کی روایات پر پشیمانی کا اظہار تو کرنا چاہیے کہ ان لوگوں نے زیادتی کی ہوئی ہے، موجودہ وزیر اعظم کی بیٹیوں پر مقدمات کیے، کیا یہ سیاست ہے، یہ تو ذاتی دشمنیاں ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ آج ایجنسیوں کی بات ہو رہی ہے، جلسے کے بعد تقریباً ساری رات اعزاز سید ریکارڈ پر ہے کہ علی امین گنڈاپور کوہسار میں آئی ایس آئی والوں کے پاس بیٹھے رہے، ان سے پوچھیں تو صحیح، ہم نہیں یہ جرات کرتے، ان سے پوچھیں وہاں کیا کرنے گئے ہوئے تھے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اسد قیصر کے گھر میٹنگیں ہوتی تھیں، میں ان افسران کے نام بھی بتا سکتا ہوں کہ ہماری میٹنگ ہو رہی ہوتی تھی اور وہ باہر والے کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے، آج اسی ادارے کے خلاف بولتے ہیں، کل ان کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے، یہ تضادات ہماری سیاست سے ختم ہونے چاہییں، اگر ہوئی ہیں تو ان پر اظہار افسوس ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، اس اسمبلی سے20 منٹ میں 52 بل پاس ہوئے، وہ یاد ہیں کسی کو، اس کے بعد اسمبلی تحلیل کی گئی، اب جو ہے قانون اور قاعدہ سکھایا جا رہا ہے، اگر آپ نے تلخی کو کم کرنا ہے تو اس کا طریقہ ہے جنہیں استعمال کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ کل کسی نے کہا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو ایوان کمزور تھا، اس وقت ایوان کمزور نہیں تھا، آپ نے اسے اسٹیبلشمنٹ کے پاس یرغمال رکھا ہوا تھا تاکہ آپ کا اقتدار قائم رہے۔