وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کل کوئی بھی آئینی ترمیم نہیں لا رہی جب کہ نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے اس بارے میں لا علمی ظاہر کردی ہے۔
دونوں اہم حکومتی شخصیات پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر قانون سے صحافیوں نے سوال کیا کہ کل آپ کوئی اہم قانون سازی کرنے جا رہے ہیں؟ اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ حکومت کل کوئی آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گرفتار ارکان اسمبلی کے لیے اجلاس طلب کیا گیا، جب تک اجلاس رہے گا، پروڈکشن آرڈر کارآمد رہیں گے۔
اس موقع پر نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار نے کسی بھی قانون سازی سے متعلق لاعلمی کا اظہار کردیا۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی اہم قانون سازی کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کو عشائیے پر مدعو کیا جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو بھی دعوت دی گئی تھی۔
حکومتی ذرائع نے کہا تھا کہ وزیراعظم ملکی معاشی صورت حال اور مجوزہ قانون سازی پر اراکین کو اعتماد میں لیں گے، حکومت ججز کی تعداد بڑھانے سمیت ایک آئینی اصلاحاتی پیکج بھی لانا چاہتی ہے۔
اس سے قبل 3 ستمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے سے متعلق بل کو مؤخر کر دیا تھا، بل حکومتی رکن بیرسٹر دانیال چوہدری نے پیش کیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ترمیمی بل کا مقصد فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، بعد ازاں پی ٹی آئی نے بیرسٹر دانیال کے بل کی مخالفت کردی تھی۔
28 اگست کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 23 کرنے کا فیصلہ کیا تھا، چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 22 کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
بل کے مطابق ججز کی تعداد بڑھانے سے سپریم کورٹ کے زیر التوا کیسز حل کرنے میں مدد ملے گی، ججز کی تعداد بڑھانے سے سپریم کورٹ سائلین کو انصاف کی بروقت یقین دہانی کرا سکے گی۔
بل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ججز تعیناتی میں ان کی ماحولیات، بین الاقوامی تجارت اور سائبر کرائم کے قوانین میں مہارت مدنظر رکھی جائے گی، 24 جولائی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے بیشتر ارکان نے اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججوں کی منظور شدہ تعداد میں اضافے کی ضرورت پر اتفاق کیا تاہم اس حوالے سے بل پر غور ان کے اگلے اجلاس تک موخر کر دیا گیا تھا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ججز کی تعداد کا تعین زیر التوا تفصیلات کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے،ہمیں اسے 17 سے بڑھا کر 24 کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
27 اپریل کو سپریم کورٹ میں فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد 57 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔
2022 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی اعلیٰ اور نچلی عدالتیں 21 لاکھ 44 ہزار زیر التوا مقدمات کے ایک بڑے بیک لاگ سے نمٹ رہی ہیں کیونکہ 2021 کے دوران 41 لاکھ 2 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور 40 لاکھ 60 ہزار نئے مقدمات دائر کیے گئے۔
2021 کے آغاز میں تمام عدالتوں میں مجموعی طور پر 21 لاکھ 60 ہزار مقدمات زیر التوا تھے۔