کوئٹہ : وزیر اعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے صحافی صوبے کی خوبصورت اقدار اور روایات سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔
یہاں کے صحافی نامساعد حالات، مالی مشکلات کے باوجود اپنا تعمیری کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔
مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
تنقید برائے اصلاح کے لیے صحافیوں کو حکومتی امداد سے آزاد کرنا میرا نصب العین ہے۔
حکومت اس طبقے کے مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد کی قیادت میں سینئر صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔
پاکستان فیڈرل یونین اف جرنلسٹس کے سابق صدر سلیم شاہد، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری عبدالشکور خان بھی اس موقع پر موجود تھے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے وفد نے جرنلسٹس ہاوسنگ سوسائٹی کے منصوبے میں تعطل سمیت دیگر مسائل پر تفصیلی بریفنگ دی۔
وزیر اعلٰی بلوچستان نے اجلاس میں موجود متعلقہ سیکریٹریز کو تمام مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کیں۔
انہوں نے وفد کی جانب سے جرنلسٹس ہاوسنگ سوسائٹی کی اراضی کو محکمہ اطلاعات سے فوری طور پر جرنلسٹس کوآپریٹو سوسائٹی کے نام پر کرنے کا حکم دیتے ہوئے مجوزہ منصوبے میں تعطل کا شکار ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
انہوں نے بلوچستان میں میڈیا کی فلاح و بہبود کے لیے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ کی سیڈ منی میں 23 کروڑ سے 50 کروڑ اضافے، جبکہ کوئٹہ پریس کلب اور جرنلسٹس اکیڈمی کو بلترتیب 20 کروڑ اور ایک کروڑ کی سیڈ منی کی فراہمی کا حکم دیا۔
انہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سولرائزیشن کے منصوبے کی بھی منظوری دی۔
اس موقع پر وزیر اعلٰی بلوچستان نے کہا کہ موجودہ حکومت صحافیوں سمیت تمام طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
موجودہ حکومت میڈیا کی جانب سے تنقید برائے اصلاح کا خیر مقدم کرے گی۔
کوئٹہ پریس کلب اور اکیڈمی کے لیے سیڈ منی کی منظوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحافیوں کو آزادانہ صحافت کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔
انہوں نے بلوچستان کے صحافیوں کی غیر جانبداری اور مخصوص روایات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں کی اپنی ایک جداگانہ شناخت ہے جو ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔
وزیر اعلٰی بلوچستان کی صحافیوں سے اس ملاقات میں صوبائی وزیر ریونیو میر عاصم کرد گیلو، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند، سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز بلوچستان نور خان کھیتران، ایڈیشنل سیکرٹری چیف منسٹر سیکرٹریٹ محمد فریدون اور پریس سیکرٹری شیخ عبدالرزاق سمیت محکمہ فنانس، محکمہ مواصلات و تعمیرات، کیو ڈی اے کے حکام بھی موجود تھے۔
دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی سے پیر کو یہاں قطر شاہی حکمراں فیملی کے رکن شیخ طلال خلیفہ کے اے التھانی کی قیادت میں قطر کے وفد نے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اعلٰی بلوچستان نے قطر شاہی حکمراں وفد کو چیف منسٹر یوتھ اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان سے 30 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں کی تربیت دے کر قطر و دیگر ممالک میں بھیجوائیں گے۔
صوبے کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو بیرون ملک روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
یہ نوجوان باعزت روزگار اور اپنے خاندانوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ زر مبادلہ بھی پاکستان بھیجوائیں گے۔
اس پروگرام کی بدولت معاشی استحکام آئے گا اور غربت میں کمی آئے گی۔
قطر کے شہزادے شیخ طلال خلیفہ کے اے التھانی نے چیف منسٹر یوتھ اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ اس پروگرام کے تحت بلوچستان کے نوجوانوں کو قطر میں روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔
اس موقع پر وزیر اعلٰی بلوچستان کی جانب سے معزز مہمانوں کو سوئنیر اور تحائف بھی دیے گئے۔
علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی سے پیر کو یہاں مختلف پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے ملاقات کی اور اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔
ملاقات میں صوبائی وزراء میر صادق عمرانی، راحیلہ حمید خان درانی، میر شعیب نوشیروانی اور رکن بلوچستان اسمبلی خیر جان بلوچ بھی موجود تھے۔
اساتذہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو درپیش مالی مسائل کا پائیدار اور مستقل حل تلاش کیا جائے گا۔
تدریسی اسٹاف اور ملازمین کو درپیش مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔
صوبائی حکومت نہیں چاہتی کہ اساتذہ سمیت کسی بھی ملازم کو تنخواہوں تک کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
اساتذہ معاشرے کا قابل احترام طبقہ ہے۔
صوبے کی جامعات کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا مستقل حل تلاش کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں رواں ہفتے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اہم فیصلے کرتے ہوئے نتیجہ خیز اقدام اٹھائے جائیں گے۔
ہر یونیورسٹی کی کارکردگی اور درپیش مشکلات کا الگ الگ جائزہ لیا جائے گا۔
اور تمام پہلوؤں سے بہتری کی تجاویز اور مشکلات کو حل کرنے کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ غیر معمولی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے جامعات غیر ضروری بھرتیوں اور تعمیراتی پروجیکٹس سے اجتناب کریں۔
اور مالی امور میں شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے خود انحصاری کے منصوبوں پر کام کیا جائے۔
پوری دنیا میں جامعات مالی طور پر خود کفالت کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔
بلوچستان کی جامعات کو بھی دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ماڈیول اپنانے ہوں گے تاکہ جدید تعلیمی استعداد کار کے ساتھ ساتھ جامعات مالی مشکلات سے دوچار نہ رہیں۔
Leave a Reply