|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2024

کوئٹہ (این این آئی) بلوچستان اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے۔

حکومت امن و امان برقرار رکھنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔

ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل پر پابندی سے 30 لاکھ لوگ بے روزگار اور بھیانک نتائج مرتب ہوں گے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ قانون ساز ادارے میں غیر قانونی کام پر بحث نہیں ہونی چاہیے، اس پر علیحدگی میں بات کی جاسکتی ہے۔

صوبائی حکومت نوجوانوں کو باصلاحیت بنا کر بیرون ملک روزگار کے لئے بھیجنے کے منصوبے کا جلد افتتاح کرے گی۔

بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد رہنے کے قابل نہیں۔

صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لورالائی ڈویژن میں 44 روز میں 50 افراد کو قتل کیا گیا۔

لورالائی ڈویژن کے کمشنر نے مجھے فون تک نہیں کیا۔

کالعدم تنظیم صوبے میں کوئلہ کانوں سے کروڑوں روپے بھتہ لے رہی ہے، ہمیں تحفظ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی ہال کا فرنیچر معیاری نہیں، بلوچستان ہاؤس اصطبل سے بھی بدتر ہے۔

اسپیکر عبدالخالق اچکزئی نے صوبائی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کے پاس کابینہ کا فورم ہے تو یہ باتیں وہاں کی جائیں۔

اجلاس میں محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی سے متعلق سوالات اگلے اجلاس تک موخر کردئیے گئے۔

نیشنل پارٹی کے رکن خیر جان بلوچ نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آواران مسائل سے دوچار ہے۔

ڈی سی آواران لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں سے امتیازی سلوک کر رہی ہیں، ایسی ڈی سی کو آواران میں لگایا جائے جو ایماندار ہو۔

آواران کے عوام پر ظلم نہ کیا جائے، نوجوان پہلے ناراض ہیں، حالات پر توجہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر آواران چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل کے دفتر کا کارڈ لے گئے، اے سی نے وہاں عملے کو مرغا بنایا، تشدد کیا۔

ہمارے ضلع کے ایک پروجیکٹ کی گاڑیاں حب میں استعمال ہورہی ہیں۔

نیشنل پارٹی کے رکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ لوکل باڈییز کے چیئرمین کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

نیشنل پارٹی کے تمام چیئرمین کو برطرف کردیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، جس پر صوبائی وزیر میر شعیب نوشیروانی نے کہا کہ اس واقعے کی انکوائری ہو رہی ہے، رپورٹ متعلقہ ایم پی اے سے شیئر کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کی باتوں کا جواب کابینہ میں دوں گا۔

آواران واقعے کی انکوائری کے لئے حکومت اور اپوزیشن سے 4 رکنی کمیٹی بنالیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا احتساب کوئی اور لوگ کرتے ہیں۔

اجلاس میں حق دو تحریک کے رکن مولانا ہدایت الرحمن نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں۔

گوادر میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے تیل کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

منتخب ارکان کے بجائے غیر منتخب لوگ بلوچستان کے فیصلے کر رہے ہیں۔

صوبے میں تیل کے کاروبار سے 30 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو بے روزگار کر کے خودکش بمبار بنایا جا رہا ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے نوجوان رضوان پر تین بار فورسز نے تشدد کیا، جس کے بعد اس نے بیلہ میں خودکش حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کوسٹ گارڈ سمیت دیگر اداروں کے لوگ ارب پتی بن گئے ہیں، گاڑیوں سے یومیہ لاکھوں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کی فریاد کوئی سننے والا نہیں ہے۔

اسپیکر نے مولانا ہدایت الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک قرارداد لے آئیں جس میں اسمگلنگ کی اجازت دی جائے۔

جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ یہ اسمگلنگ نہیں ہے، حکومت لوگوں کو روزگار اور ملازمتیں فراہم کرے۔

نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کی اجازت تو جنرل سرفراز نے دی تھی۔

کیا انہوں نے بھی غلط کام کیا، اور اس وقت آئین موجود نہیں تھا، اور یہ اسمگلنگ نہیں تھی؟

انہوں نے کہا کہ مکران میں انڈے سے لیکر ٹماٹر تک سب کچھ ایران سے آتا تھا۔

ایرانی تیل کی ترسیل سے 25 سے 30 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

کیا ایف سی، کسٹم اور کوسٹ گارڈ کو پیسے جاتے ہیں، یہ پیسے اسلام آباد بھی جاتے ہیں۔

اگر منہ کھولا تو صورتحال خراب ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی تیل کی ترسیل کے کام کو بند کرنے کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔

وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی روزگار کا مسئلہ ہے۔

کیا لورالائی، ڈیرہ بگٹی، بارکھان، جھل مگسی سمیت دیگر علاقوں کے لوگوں کا ٹوکن سسٹم پر حق نہیں کہ انہیں بھی روزگار کرنے دیا جائے؟

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی قانون ساز ادارہ ہے، یہاں پر غیر قانونی کام پر بحث نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے پر سوچ بچار کر سکتے ہیں اور کوئی حل نکالیں گے، البتہ اس مسئلے کو اسمبلی میں زیر بحث لانا درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل تجارت نہیں ہے، بلوچستان کے حالات الگ ہیں۔

یہاں شورش بھی چل رہی ہے، خصوصی حالات میں خصوصی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت روزگار دینے کی مشینری نہیں ہے۔

ہم 2500 سے زائد نوجوانوں کو تربیت دے کر دیگر یورپ اور دیگر ممالک میں بھیجنے جا رہے ہیں۔

نوجوانوں کو بلا سود قرض دے کر کاروبار کرنے کا پروگرام شروع کر رہے ہیں، کیا ہم نوجوانوں کو زامباد کی شکل میں چلتے پھرتے بم پر قومی شاہراہوں پر بھیج دیں؟

نیشنل پارٹی کے رکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی نے جب بھنگ اور افیون کی کاشت کی اجازت دی تو کیا وہ غیر قانونی نہیں تھی؟

وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ بھنگ کے مثبت فوائد پر ایک ریسرچ ہوئی تھی، جس پر بات کی گئی مگر اس پر قانون سازی نہیں ہوئی۔

حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی نئی عمارت پر پانچ ارب روپے خرچ نہ کریں، نوجوانوں کو روزگار دیں۔

اگر بارڈر نہیں کھولے تو پورے پاکستان کی فوج بلوچستان میں لے آئیں، امن قائم نہیں ہوگا۔

بھوکا اللہ اور رسول کا بھی انکاری ہوتا ہے، بلوچستان کے لوگ اسمبلی کی عمارت نہیں، روزگار مانگ رہے ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی بنانی ہوگی۔

وزیراعلیٰ کی تجویز پر جلد ہی اس مسئلے پر اجلاس ہوگا۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن آغا عمر احمدزئی نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔

قومی شاہراہیں غیر محفوظ ہیں، مزدور مارے جا رہے ہیں، اس ایوان میں بات ہوگی تو مسائل حل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوان باغی ہو رہے ہیں، ڈیزل اور پیٹرول کی ترسیل کے حوالے سے قانونی فریم ورک بنا کر صرف کوئٹہ تک آنے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سریاب کا علاقہ میاں غنڈی سردیوں سے قبل ہی گیس سے محروم کردیا گیا ہے، اس طرح گیس چوری بھی بڑھے گی۔

صوبے کی گیس کا کوٹہ بڑھایا جائے۔

اجلاس میں نقطہ اعتراض پر جمعیت علماء اسلام کے رکن غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ نوشکی میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما میر ظہور بادینی کے قاتلوں کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔

انتظامیہ اس حوالے سے تعاون نہیں کر رہی۔

قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، امن و امان کی صورتحال ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

کوئی قومی شاہراہ محفوظ نہیں ہے، حکومت بتائے کہ شہداء کے قاتلوں کو گرفتار کرے گی یا نہیں۔

 

آزاد رکن مولوی نور اللہ نے کہا کہ دکی میں مزدوروں کو شہید کیا گیا، سیکیورٹی ادارے چار گھنٹوں میں جائے وقوعہ پر نہیں پہنچ سکے۔

کوئلہ کے کانوں میں مزدوری کرنا قانونی ہے، مزدوروں کو تحفظ دینا کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟

انہوں نے کہا کہ خانوزئی کی کوئلہ کانیں پہلے ہی بند ہو چکی ہیں، دکی واقعے میں کسی کالعدم تنظیم کا ہاتھ نہیں۔

عوام کے لئے روزگار کے مواقع بند کرنا پشتون دشمنی ہے۔

صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے سے نقصانات ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں عالمی طاقتیں دہشتگردی میں ملوث اور متحرک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افرا تفری پھیلانے سے انتشار پیدا ہوگا، ہمیں متحد ہونا ہوگا۔

حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں، ہم جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں سمیت دیگر واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کریں گے۔

اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے ایوان میں سال 2022-23 اور 2023-24 کی آڈٹ رپورٹس برائے کلائمٹ چینج، انوائرمنٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ آرگنائزیشنز پیش کیں۔

جبکہ بی این پی عوامی کے رکن میر اسد اللہ بلوچ کا توجہ دلاؤ نوٹس محرک کی عدم موجودگی کی بناء پر موخر کردیا گیا۔

بعد ازاں اسپیکر عبدالخالق اچکزئی نے اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔