کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبے کے عوام کو 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی اور بلز پر ٹیکسز کے خاتمے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
یونین کونسل شینگر کو سب تحصیل کا درجہ دینے کی قرارداد محرک نے واپس لے لی۔
صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو اور رکن اسمبلی زابد علی ریکی میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو ایک گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کی زیر صدارت شروع ہوا۔
اجلاس میں صوبائی وزیر زراعت علی مدد جتک نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حلقہ انتخاب سریاب میں سوئی گیس نہ ہونے کے برابر ہے۔
سردیوں کے آغاز سے قبل ہی گیس کا مسئلہ درپیش ہے۔
اس معاملے پر جی ایم سوئی سدرن گیس کو چیمبر میں بلایا جائے۔
نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی رحمت بلوچ نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے حلقے میں محکمہ صحت کی پوسٹیں دوسرے حلقے میں منتقل کر دی گئی ہیں۔
یہ کام محکمہ خزانہ نے سر انجام دیا ہے، جس پر صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ میں تمام معلومات کر کے اگلے سیشن میں جواب دوں گا۔
اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن میرزا بد علی ریکی نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یونین کونسل شینگر ضلع واشک جو کہ 35 ہزار نفوس پر مشتمل علاقہ ہے۔
یونین کونسل شینگر کی آبادی دیگر یونین کونسل کی بنسبت بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یونین کونسل شینگر کو تاحال سب تحصیل کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ یونین کونسل شینگر کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے سب تحصیل کا درجہ دیا جائے تاکہ علاقے کے لوگوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ ممکن ہو سکے۔
صوبائی وزیر ریونیو میر عاصم کرد گیلو نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔
آئے روز اس طرح کی قراردادیں آتی ہیں، مذاق بن گیا۔
قرارداد کے معاملے پر زابد ریکی اور عاصم کرد گیلو میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
میرزا بد علی ریکی نے صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ تو اس وزارت کے قابل ہی نہیں ہو۔
بعد ازاں اراکین اسمبلی کی مداخلت پر رکن اسمبلی زابد ریکی نے قرارداد واپس لے لی۔
اجلاس میں حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمن نے 12 ستمبر 2024 کی نشست میں موخر شدہ قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجلی آج کے ترقی یافتہ دور میں بنیادی ضرورت میں شمار ہوتی ہے۔
آج کا ذریعہ معاش ہی نہیں بلکہ صحت تعلیم کے حصول کے لیے بھی ایک ضرورت بن چکی ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں اتنی بجلی پیدا ہوتی ہے جس سے پورے بلوچستان کو 24 گھنٹے بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ بجلی بلوچستان کی بجائے باہر چلی جاتی ہے۔
چونکہ اوچ پاور پلانٹ سے میگاوٹ، حبکو پاور پلانٹ سے 500 میگاواٹ اور حبیب اللہ کول پاور پلانٹ سے 150 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایران کے متصل مکران اور تفتان کو ایران سے بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔
لیکن پھر بھی بلوچستان کے عوام کو بجلی میسر نہیں اور جو تھوڑی بہت میسر ہے وہ بھی انتہائی مہنگی ہے اور آئے روز اس پر درجنوں ٹیکس بھی لگائے جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق کے باوجود کوئٹہ سے لے کر گوادر تک اور چمن سے لے کر جعفر آباد تک بجلی نا پید ہے۔
چونکہ عوام کی سہولت کی خاطر مکران کے تینوں اضلاع، گوادر، کیچ اور پنجگور کو ایران سے بجلی فراہم کی جاتی تھی۔
لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے بجلی 200 میگاواٹ کم کر کے علاقے کے عوام کو صرف 10 میگا واٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
اس اقدام سے علاقے کے عوام ازیت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔
اور بلوچستان کے عوام کے ذمے بجلی کے جو سابقہ بقایا جات ہیں کو معاف کیا جائے۔
اور صوبے کے تینوں پاور پلانٹس سے صوبے کے عوام کو خصوصاً مکران کو 24 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے۔
اور ساتھ ہی بجلی کے بلز سے ناجائز ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔
نیز گوادر، کیچ اور پنجگور کے عوام کو ایران سے جس ریٹ پر بجلی خریدی جا رہی ہے، اسی ریٹ پر بجلی فراہم کی جائے۔
قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ صوبے سے بجلی اور گیس پیدا ہوتی ہے مگر مسلسل وفاق کی جانب سے صوبے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں ایک گھنٹہ بجلی جاتی ہے، یہاں غریب لوگوں کے لاکھوں روپے کے بل آ رہے ہیں مگر انہیں دن میں دو سے تین گھنٹے بجلی میسر نہیں ہے۔
بی اے پی کی رکن فرح عظیم شاہ نے کہا کہ جدید دور میں بھی ہم بجلی جیسی سہولت کے لیے رو رہے ہیں۔
آئی پی پیز کے لیے صوبے سے چارجز ادا نہ کیے جائیں۔
صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے کہا کہ نصیر آباد میں دو پاور پلانٹ ہونے کے باوجود بھی 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
کیسکو چیف کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں، جن علاقوں میں پاور پلانٹ ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر بجلی فراہم کی جائے۔
سوئی گیس پر 200 فیصد ٹیکس لگانا مناسب عمل نہیں ہے۔
نیشنل پارٹی کے رکن میر رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی کا صوبائی امیر بننے پر مولانا ہدایت الرحمن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
کوئٹہ سمیت صوبے میں بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ بجلی جانے کا کوئی شیڈول نہیں۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم کے ساتھ کوئٹہ میں اہم ترین اجلاس کے دوران بھی 8 سے 10 بار بجلی بند ہوئی۔
وزیراعلیٰ کی مشیر مینہ مجید نے کہا کہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بند کیا جائے۔
پارلیمانی سیکرٹری برکت رند نے کہا کہ مکران ڈویژن کو صرف 10 سے 15 میگا واٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
شدید گرمی میں لوگوں کا جینا محال ہو جاتا ہے، بجلی کی مکمل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
صوبائی وزیر میر عاصم کردگیلو نے کہا کہ بلوچستان حکومت اور کیسکو کے درمیان معاہدے کے باوجود صوبے میں 6 گھنٹے کے بجائے 3 گھنٹے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، بجلی کی وولٹیج میں کمی بیشی کے باعث سمر سیبل جل جاتے ہیں، اس کا تدارک کیا جائے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئر مین اصغر علی ترین نے تجویز دی کہ صوبائی حکومت کمیٹی بنا کر وفاق سے بات کرے تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق میں بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
اسلام آباد میں بلوچستان کا ایک سیکرٹریٹ قائم کر کے سیکرٹری بٹھایا جائے جو وفاق کے ساتھ معاملات کو اٹھایا کرے۔
جمعیت علماء اسلام کے رکن غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ زمینداروں کے لیے بجلی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا۔
سولر منتقلی منصوبے کا پہلا فیز کوئٹہ اور مستونگ میں ہو رہا ہے جبکہ دیگر اضلاع کی باری آنے میں کافی وقت لگے گا۔
لہذا مسئلے کا حل نکالا جائے۔
صوبائی وزیر میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ واپڈا کے لوگ اسمبلی کو اہمیت نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ گرمی میں دو سے اڑھائی گھنٹے بھی بجلی میسر نہیں آتی۔
بجلی کی وجہ سے براہ راست عوام کے روزگار اور معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔
سردیوں سے قبل وزیراعلیٰ کمیٹی تشکیل دے کر اسلام آباد بھیجیں تاکہ بجلی اور گیس کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
پارلیمانی سیکرٹری محمد خان لہڑی نے کہا کہ کیسکو کے چیف کو بلا کر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئر مین خیر جان بلوچ نے رولنگ دی کہ وزیراعلیٰ ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اسلام آباد میں وزیر اعظم سے ملاقات کر کے وفاقی حکومت کے ساتھ اس اہم مسئلے کو اٹھائے۔
بعد ازاں قرارداد کو منظور کر لیا گیا۔
اجلاس میں میر اسد اللہ بلوچ کا توجہ دل
اؤ نوٹس، سید ظفر آغا، مولانا ہدایت الرحمن کی قراردادیں محرکین کی عدم موجودگی کی بنا پر موخر کر دی گئیں۔
بعد ازاں اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔