چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر 8 ججوں کی جانب سے دوسری بار وضاحت جاری کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے عملے سے جواب طلب کرلیا، جس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم نہیں کرسکتیں۔
مطابق چیف جسٹس نے ایک دفتری نوٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی دوسری وضاحت جاری ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے متعلقہ افسران سے وضاحت طلب کی۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ کی جانب سے تحریر کردہ دوسری وضاحت میں کہا گیا ’عدالت عظمیٰ نے 12 جولائی کے مختصر حکم میں آئین کے آرٹیکل 51(6) کے پیراگراف (ڈی) اور (ای) اور آرٹیکل 106 کی شق (3) کے پیراگراف (سی) کے تحت سیاسی جماعتوں کے ذریعے مخصوص نشستوں پر متناسب نمائندگی کے حق کو نافذ کرنے کے لیے ریلیف دیا تھا۔
گزشتہ روز جاری کیے گئے چیف جسٹس کے دفتری نوٹ میں کہا گیا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ 18 اکتوبر کو 8 ججوں کی طرف سے وضاحت جاری کی گئی تھی، انہوں نے وضاحت طلب کی کہ اصل فائل کے بغیر وضاحت کیسے جاری ہوئی۔
مزید کہا گیا کہ ڈپٹی رجسٹرار (عملدرآمد) نے مخصوص نشستوں کے کیس کی اصل فائل نہ ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری کو خط جاری کیا۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے عہدیداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ’مذکورہ خط/نوٹس کو دفتر میں داخل کرنے سے پہلے کیوں جاری کیا گیا تھا‘۔
اسی طرح ویب ماسٹر عاصم جاوید سے بھی وضاحت طلب کی گئی ہے کہ وہ بتائیں دفتر میں فائل کیے بغیر دوسری وضاحت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر 18 اکتوبر کو کیوں اپ لوڈ کی گئی۔
22 ستمبر کو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں 9 سوالات اٹھائے، جس میں اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ 14 ستمبر کے پہلے کے وضاحتی حکم کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کیسے اپ لوڈ کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8 ججوں کی طرف سے جاری کردہ 14 ستمبر کی پہلی وضاحت میں الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی پر تنقید کی تھی، جس میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا۔
21 ستمبر کے اپنے خط میں، چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ 14 ستمبر کے وضاحتی حکم کو عدالت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی ہدایت کس نے کی تھی۔
واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
رواں سال 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔
Leave a Reply