سندھ ہائی کورٹ نے سینئر پولیس افسر کو حکم دیا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 8 لاپتا طلبہ کو 4 نومبر تک ’پیش‘ کیا جائے، اور خبردار کیا ہے کہ ناکامی کی صورت میں ’مناسب حکم‘ جاری کیا جائے گا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس، ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی 4 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
درخواست گزار وزیر احمد نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ 16 اکتوبر کو پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے ان کے بھائی قمبر علی اور دیگر 7 طلبہ شعیب علی، حنیف، اشفاق، شہزاد، بیبرگ امیر، زبیر اور سعید اللہ کو گلستان جوہر میں ان کی مشترکہ رہائش گاہ سے اٹھایا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کا لاپتا بھائی بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے کے ایک کالج میں انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہیں لیکن وہ نیپا کے قریب ایک ٹیوشن اکیڈمی میں پڑھ رہے تھے
انہوں نے کہا کہ قمبر علی کی سیاست سے کوئی وابستگی نہیں تھی، وہ کسی بھی مشکوک سرگرمی میں ملوث نہیں، لیکن پولیس نے اسے اور اس کے 7 دوستوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرلیا۔
ابتدائی سماعت کے بعد بینچ نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہان کے ساتھ ساتھ فاضل ایڈووکیٹ جنرل اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا جائے، ایس ایس پی کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ سماعت پر زیر حراست افراد کو پیش کیا جائے، ناکامی کی صورت میں مناسب کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ روز جامعہ کراچی کے طلبہ کی بڑی تعداد نے لاپتا بلوچ طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف کیمپس میں ایک ریلی نکالی۔
احتجاجی ریلی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری سے شروع ہوئی اور یو بی ایل بینک چوک پر اختتام پذیر ہوئی۔
ریلی میں طلبہ و طالبات، فیکلٹی ممبران کے ساتھ ساتھ کچھ غیر تدریسی ملازمین نے بھی شرکت کی۔
کراچی یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ممبر ڈاکٹر ریاض احمد، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا خان اور پروگریسو اسٹوڈنٹس الائنس کے آنند بخش نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ لاپتا طلبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔