کوئٹہ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عوامی پیسوں کے ضائع کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کریگی
ہرمحکمے کا آڈٹ کرکے اسے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا، عوام کے پیسوں کی وصولی متعلقہ شخص سے نہیں کی گئی تو انتظا میہ کے توسط سے ملزم کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں۔
یہ بات انہوں نے محکمہ خوراک کے مالی سال2021-22 اور2022-23کے آڈٹ پیراز کی جانچ پڑتال کے حوالے سے محکمہ خوراک کے ساتھ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں زابد علی ریکی، فضل قادر مندوخیل و دیگر ممبرز، ڈی جی آڈٹ شجاع علی، اے جی بلوچستان نصراللہ جان، سیکرٹری محکمہ خوراک مظفر ذیشان لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج الدین لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری لاء سعید اقبال، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس محمد عارف, چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس اور ڈائرریکٹر فوڈ رحیم بنگلزئی و دیگر آفیسرز نے شرکت کی۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے زور دے کر کہا کہ کمیٹی عوامی پیسوں کے ضائع کی ہرگز اجازت نہیں دے گی اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ ہرمحکمہ کا آڈٹ کیا جائے اور اسے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
انہوں نے محکمہ خواراک کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈی جی فوڈ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی میں کیوں شرکت نہیں کی جبکہ ان کو ان کے سیکرٹری نے بلایا تھا یہ آفیسرز کی غیر زمہ داری ہے۔
کمیٹی نے 5 کروڑ 75 لاکھ روپے کے مختلف ٹیکسز فوری وصول کرنے کا حکم دیا۔2006-07کی آڈٹ رپورٹ کی Compilance کے حوالے سے کمیٹی نے صرف ایک ملازم کی سزا اور برطرفی پر عدم اطمینان کا اظہار کیااور محکمہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ ریکوریز کے بارے میں تفصیلی رپورٹ فراہم کرے اور انہیں 15 دن کے اندر کمیٹی کو پیش کرے۔٫
چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا کہ اگر عوام کے پیسوں کی وصولی متعلقہ شخص سے نہیں کیا گیا تو انتظا میہ کی توسط سے ملزم کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں۔
کمیٹی نے کم معیار کی گندم کی خریداری کے مسئلے پر بھی بحث کی جسے پہلے نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو کو بھیجا گیا تھانیب سے اس معاملے پر محکمہ کی معلومات کی کمی پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ متعلقہ کیس کے حوالے سے نیب سے اسکاسٹیٹس پوچھا جائے۔
زابد علی ریکی ممبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ محکمہ کو اس حوالے سے معلومات ہونی چاہئے کہ ان کے آفیسرز کے خلاف کتنے کیسز نیب میں ہیں اور کتنے کیسز اینٹی کرپشن میں زیر التواء ہیں۔
کمیٹی نے گیارہ اسکیل کے ملازمین کے پاس موجود اربوں روپے کا حساب کتاب کرنے میں ناکامی پر محکمہ کو تنقید کا نشانہ بنایا چیئرمین اصغر علی ترین نے جوابدگی کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ کی ذمہ داری پر زور دیا۔
اجلاس میں 2006 میں 56 ملین روپے کے غبن سے متعلق ایک کیس پر نظر ثانی کی گئی جس میں کمیٹی نے محکمہ کو ہدایت کی کہ وہ نیب کے ساتھ اس کے سٹیٹس کے بارے میں معلومات وصول کریں ایک اور پیرا پر 17- 2016 میں ایک ملازم کے 13 ملین روپے کی گندم کے غبن پر تبادلہ خیال کیا گیا محکمہ نے دعوی کیا کہ گندم واپس کر دی گئی
لیکن ملازم کی تنخواہ سے صرف 10,000 روپے ماہانہ کٹوتی کی گئی جس سے نقصانات کا ازا لہ ہورہا ہے اس پر فضل قادر ممبر پی اے سی نے کہا کہ تنخواہ سے ایسے وصولی ہرگز نہیں کی جاسکتی یہ انتہائی نا معقول رقم ہے جبکہ ریکوری بہت بڑی رقم ہے متعلقہ شخص کو بڑی رقم ادا کرنی ہے۔
کمیٹی نے وائیٹ روڈ پر ایک بند گودام میں گندم کی مقدار میں تضادات پر بھی توجہ دی جس کی پہلے نیب نے تحقیقات کی تھی محکمہ کی جانب سے گندم کے کمی کا سبب بننے والے مختلف قسم کے کیڑ وں مکوڑوں کا جواز پیش کیا گیا۔کمیٹی نے متعلقہ پیرے پر ریکوری کی ہدایات کرتے ہوئے 15 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اجلاس میں مجموعی طور پر 6.782 ملین روپے کی غیر مجاز اعزازیہ ادائیگیوں کی نشاندہی کی گئی جس میں 4.396 ملین کا حساب تھا اور دیگر رقم کا محکمے کی جانب سے کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا
کمیٹی نے پیرے پر جلد از جلد ریکوری کا حکم دیا۔
این ایل سی ٹرانسپورٹیشن کنٹریکٹس میں 42 ملین روپے کے غبن پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کمیٹی نے محکمہ کو اپنے موقف کا جواز پیش کرنے اور 15 دن کے اندر ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
آخر میں کمیٹی نے ذخیرہ سے زیادہ گندم کی خریداری پر سوال اٹھایا۔
چیئرمین اصغر ترین نے ایک خصوصی آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کو تحقیقات کرنے اور پی اے سی کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
آج کے اجلاس سے کمیٹی کی جانب سے سخت پوچھ گچھ اور سخت اقدامات و شفافیت اور جواب دہی کے لیے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ کہ پی اے سی ہر حالت میں عوام کی رقم کا حساب کتاب جاری رکھے گا۔
Leave a Reply