|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2024

جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آرمی چیف کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کو انتظامی معاملہ قرار دے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں، حالات خراب ہیں تو میرے اختیارات میں اضافہ کرو کی پالیسی درست نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں ملک کو ایک سویلین حکومت کے طور پر آگے لے کرجانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں آپ نے پارلیمنٹ کو اختیارات دیے آج فوج کو اختیارات دے رہے ہیں، یہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی توہین ہے۔

جے یو آئی ف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پہلے نیب کے اختیارات کم کیے گئے اب دفاعی ادارے کو بے تحاشہ اختیارات دیے جارہے ہیں، دفاعی ادارہ 90 دن تک کسی کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرسکے گا، یہ اقدام سول مارشل لاء کے برابر ہے جو جمہوریت کے چہرے پر بدنما داغ اور کالک کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری ادارے اس قسم کے قوانین کی اجازت نہیں دے سکتے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی آرمی چیف، نیول چیف اور ایئر چیف کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

سینیٹ سے منظور شدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا، اس کا اطلاق آرمی چیف کی تقرری کی مدت، دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا، اپنی مدت میں آرمی چیف بطور پاکستان آرمی کے جنرل خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔

پاکستان نیوی ترمیمی بل کے تحت نیول چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی،  ایڈمرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق نیول چیف پر نہیں ہوگا، اس کا اطلاق نیول چیف کی تقرری کی مدت، دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا، اپنی مدت میں نیول چیف بطور پاکستان نیوی کے ایڈمرل کے خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔

پاکستان ایئر فورس ترمیمی بل کے تحت ایئر چیف مارشل کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی، ایئر چیف مارشل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق ایئر چیف پر نہیں ہوگا، اس کا اطلاق ایئر چیف کی تقرری کی مدت، دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا، اپنی مدت میں ایئر چیف بطور ایئر چیف مارشل ایئر فورس کے خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔

دوسری جانب قائم مقام صدر مملکت یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور تمام چھ بلز پر دستخط کر دیے، جس کے بعد تمام بلز قانون بن گئے ہیں۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *