|

وقتِ اشاعت :   2 hours پہلے

اسلام آباد : عالمی بینک نے غذائی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہاہے کہ دنیا 2030 تک بھوک کے خاتمے کے ہدف سے ابھی دور ہے۔یہ بات عالمی بینک کی جانب سے ”عالمی غذائی عدم تحفظ میں اضافہ: ترقی پذیر ممالک میں قیمتیں و اقدامات“ کے نام سے جاری رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غذائی اشیاءکی قیمتوں میں افراط زرکی شرح مسلسل بلند سطح پر ہے، حقیقی معنوں میں 59.8 فیصد ممالک میں غذائی افراط زر عمومی افراط زر سے تجاوز کر چکی ہے۔ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ نومبر 2024 کی زرعی مارکیٹ مانیٹر رپورٹ کے مطابق گندم کی قیمتیں موسمی تاخیر کی وجہ سے کئی ماہ کی بلند سطح پر پہنچیں، جبکہ مکئی کی قیمتیں فصل کی تیزی سے کٹائی کے باوجود کچھ حد تک بڑھیں۔

دوسری طرف، چاول اور سویا بین کی قیمتوں میں کمی آئی ۔ بھارت نے غیر باسمتی سفید چاول کی برآمد پر کم از کم قیمت کا قانون ختم کر دیا، جبکہ بنگلہ دیش اور ترکیہ نے مکئی، چاول اور سبزیوں کے تیل کی درآمد پر پابندیوں میں نرمی کی۔ عالمی بینک کے مطابق 2025 میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں 4 فیصد کمی متوقع ہے، جو 2026 تک مستحکم رہ سکتی ہے۔ 2024 میں اس میں 2 فیصد اضافہ ہواتھا ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت(ایف اے او) اور عالمی ادارہ خوراک پروگرام ڈبلیوایف پیکی تازہ ترین رپورٹ میں 16 ممالک کو شدید غذائی بحران کے ہاٹ اسپاٹس قرار دیا گیا ہے۔ ان میں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیاں اور اقتصادی مشکلات غذائی عدم تحفظ کے بنیادی محرکات ہیں۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے بعد کئی ممالک نے غذائی اشیاء اور کھاد کی تجارت پر پابندیاں عائد کیں۔
نومبر 2024 تک 17 ممالک نے 22 اشیاءکی برآمد پر پابندی لگائی، جبکہ 8 ممالک نے 12 برآمدی حدود مقرر کیں۔ رپورٹ میں غذائی سلامتی کویقینی اور غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے تمام متعلقہ عالمی اداروں سے فوری اور طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے جن میں تجارتی آسانیاں، سبسڈی میں اصلاحات، اور پائیدار زراعت کے اقدامات شامل ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *