|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اہم ساختی بینچ مارک کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی لچک نہ دکھاتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس کی فراہمی پر خاطر خواہ لیوی عائد کرے، تاکہ گرڈ پاور اور ان کی اندرون ملک بجلی کی پیداوار کے درمیان کسی بھی لاگت کے فوائد کو ختم کیا جاسکے۔

 گزشتہ سال ستمبر میں دستخط کیے گئے 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کو جنوری 2025 کے آخر تک سی پی پیز کو گیس منقطع کرنے کی ضرورت تھی، تاکہ ملک مارچ میں ایک ارب ڈالر کی سات قسطوں میں سے دوسری قسط کی ادائیگی کے لیے اہل ہو سکے، پاکستان اور آئی ایم ایف کے حکام آئندہ ماہ فروری میں پہلی ششماہی جائزے کے لیے اجلاس کریں گے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی جانب سے گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ہم جنوری 2025 کے آخر تک سی پی پیز کی بجلی کا استعمال ختم کر دیں گے۔

ٹیکسٹائل برآمد کنندگان اور گیس یوٹیلیٹیز بالخصوص لاہور میں قائم سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کی قیادت میں بااثر صنعتی شعبے کی جانب سے دباؤ ڈالتے ہوئے پیٹرولیم ڈویژن اس وعدے کو اس بنیاد پر واپس لینے کی وکالت کر رہا ہے کہ اس سے سسٹم میں اضافی ایل این جی پیدا ہو رہی ہے، جس سے درآمدات سے لے کر صارفین تک پوری ایل این جی سپلائی چین کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن اور گیس کمپنیوں کے حکام کا دعویٰ ہے کہ سالانہ تقریباً 50 کارگو یا 5 سال میں 250 کے قریب کارگو سرپلس ہیں، دوسری جانب صنعتی یونٹس گیس اور ایل این جی منقطع ہونے کی صورت میں برآمدی مسابقت کے نقصان کا دعویٰ کرتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو اس بنیاد پر اسٹرکچرل بینچ مارک تبدیل کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی کہ بجلی کے گرڈ کے استحکام اور رسد کے لیے کچھ چیلنجز موجود ہیں۔

ان مذاکرات میں شامل گیس سیکٹر کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پروگرام بینچ مارک کے بارے میں کوئی لچک نہیں دکھائی اور اس کے بجائے بجلی کی فراہمی کے چیلنج کی صورت میں سی پی پیز کے لیے ایل این جی کی موجودہ قیمت کے اوپر 1700 سے 1800 روپے فی یونٹ (ملین برٹش تھرمل یونٹ یا ایم ایم بی ٹی یو) عائد کرنے کی تجویز دی۔

اس طرح سی پی پیز کے لیے گیس کی قیمت تقریباً2800 سے 3200 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر 5 ہزار روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے، جس کا انحصار تیل کی عالمی قیمتوں پر ہے۔

یہ صنعتی صارفین کے لیے قابل قبول نہیں، انہوں نے کہا کہ وہ متبادل ایندھن کا استعمال کریں گے، یا کوئلے کا استعمال کریں گے، یا پرانے ٹائر جلائیں گے، صنعتی یونٹس اور گیس کمپنیوں کو چند لوگوں کی مرضی اور بیمار بجلی کے شعبے کی بقا کے لیے قربان کیا جارہا ہے۔

وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف اسٹرکچرل بینچ مارک برقرار ہے، ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، آئی ایم ایف نے لیوی کی رقم کا حوالہ نہیں دیا، لیکن تسلیم کیا کہ گیس کی موجودہ قیمت پر بھی سی پی پیز کو 1500 روپے فی ملین کیوبک فٹ یومیہ (ایم ایم سی ایف ڈی) سے زیادہ کا فائدہ ہے۔

آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ سی پی پیز کو گیس کی فراہمی کی اس طرح حوصلہ شکنی کی جائے کہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی اور کیپٹو پلانٹس کے ذریعے اندرون ملک پیداوار کے درمیان خرابی کو ختم کیا جائے، جہاں بجلی کی فراہمی ایک مسئلہ ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ سی پی پیز کو بجلی گرڈ میں منتقل ہونا چاہیے، یا اس کے مساوی قیمت ادا کرنی چاہیے، انہوں نے آئی ایم ایف کے موقف کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ سی پی پیز کو گیس فراہمی کی ترغیب ختم ہونی چاہیے۔

وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف سے تحریری وعدہ کیا ہے کہ جہاں نیٹ ورک ڈسٹری بیوشن اور ’اعتماد‘ موجود ہے، وہاں کیپٹو پاور صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ جاری رہے گا، جب کہ دیگر کیپٹو پاور صارفین رواں سال کے آخر تک بجلی گرڈ میں منتقل ہوجائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے حال ہی میں نگران حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے صنعتی سی پی پیز کو گیس کی فراہمی ختم کرنے کے لیے خودمختار معاہدوں میں ہاتھ باندھے ہیں، جو ’قومی مفادات، معاشی قابلیت اور یہاں تک کہ اکاؤنٹنگ کے مفادات‘ کے خلاف ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کو سی پی پیز سے گیس منقطع کرنے کا مطالبہ ترک کرنے پر قائل کیا جا رہا ہے۔

گیس کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ صنعتی سی پی پیز کو گیس کی فراہمی منقطع کرنا پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور دو گیس کمپنیوں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کی باضابطہ ڈیفالٹ کی ترکیب ہے، کیوں کہ ان کا مجموعی تخمینہ نقصان 400 ارب روپے سالانہ سے تجاوز کر جائے گا۔

ان کی شکایت ہے کہ کچھ طاقتور بیوروکریٹس نے بجلی کمپنیوں کی ذمہ داریاں پیٹرولیم سیکٹر کو منتقل کر دی ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاور سیکٹر کی بیلنس شیٹ اور گردشی قرضے اچھے نظر آئیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ایل این جی سے متعلق 6 ارب ڈالر سے زائد کی بنیادی سرمایہ کاری اور تقریباً 4 ارب ڈالر کی سالانہ ایل این جی سپلائی چین اس بنیاد پر رکھی گئی تھی کہ آر ایل این جی کو ’لازمی طور پر چلنے والے پاور پلانٹس‘ میں استعمال کیا جائے گا، لیکن ان وعدوں کو آہستہ آہستہ کم کرکے 66 فیصد ’خریدو یا ادائیگی کرو‘ سے منسلک کر دیا گیا، پھر 33 فیصد اور پھر پاور پلانٹس کی بندش پر اختتام ہوا۔

بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کافی حد تک مستحکم ہو گیا تھا، لیکن گیس کے شعبے میں اس کے تناسب سے ترقی ہوئی، سب سے اوپر پی ایس او ہے، جو قطر سے ’خریدنے یا ادائیگی کرنے‘ پر ایل این جی حاصل کرنے کے لیے ایک خودمختار معاہدے کا پابند ہے۔

دونوں گیس کمپنیاں ایل این جی آف ٹیک کے لیے پی ایس او کو ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہیں، اور ان کی پیداوار میں مزید کمی آ رہی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *