|

وقتِ اشاعت :   12 hours پہلے

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت میں جج آئینی بینچ نے کہا کہ 9 مئی کے روز کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاوس پہنچ گئے؟ لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ نو مئی کو لوگوں کا بغیر ہتھیار کور کمانڈر ہاؤس کے اندر پہنچنا تھا سیکیورٹی ناکامی ہے۔ اس کا کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا۔ اس کا کیس کہاں چلے گا؟

 جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ اس روز کئی لوگ ایسے بھی چل رہے تھے جنھیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کہاں جارہے ہیں؟ کیا سب کا کیس فوجی عدالت میں جائے گا۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ سب کا نہیں مگر ماسٹر مائنڈ کا کیس فوجی عدالت میں ہی چلے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سوال یہ ہے آرمی ایکٹ کا دائرہ کتنا وسیع کیا جاسکتا ہے؟ انسداد دہشت گردی ایکٹ تو آرمی ایکٹ سے بھی زیادہ سخت قانون  ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے کہ کن سویلینز کا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ وزارت دفاع کے وکیل ہیں ایک اہم سوال کا جواب دیں،9 مئی کے روز کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہائوس پہنچ گئے؟ لوگوں کا کورکمانڈر ہائوس کے اندر جانا تو سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔

جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا سکیورٹی بریچ تو ہے،  ضروری نہیں گولی چلائیں مگر 9 مئی کو جب ملٹری تنصیبات کونقصان پہنچایا گیا،کیا کوئی مزاحمت کی گئی؟

اس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا جواب دیا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9 مئی کے واقعہ میں کسی فوجی افسرکو چارج نہیں کیا گیا، جانی نقصان نہ ہو اس کیلئے مکمل تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہورہا،1967 سے یہ قانون موجود ہے، جسٹس جمال نے کہا کہ سوال یہ ہے آرمی ایکٹ کے اطلاق کو کتنا پھیلایا جا سکتا ہے؟ انسداد دہشت گردی ایکٹ آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت قانون ہے، اے ٹی اے میں سزائیں زیادہ ہیں اور رعایتیں بھی نہیں ملتیں۔

وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ کیس فوجی عدالت میں جائے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟ آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کررہے ہیں اس میں تو کوئی بھی آسکتا ہے، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے۔ محض تعلق ہونا آپ کے کسی کیس میں ہماری ملی بھگت نہیں بن جائے گا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *