کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے
ہم بامعنی بحث کرکے اسکا حل نکالنا چاہتے ہیں ، کئی بارمذاکرات کا کہہ چکے ہیں لیکن اگر کوئی بندوق کی نوک پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتا ہے تو یہ قبول نہیں، موت اور سیاسی ساکھ سے زیادہ ریاست مقدم ہے،کیاپاکستان کا جھنڈا جلانے والے، خود ساختہ آزاد بلوچستان کا ترانہ چلانے اور آزادی کاحلف لینے والے پرامن ہیں ؟
،اسمبلی میں امن وامان پر ان کیمرہ اجلاس کر کے حقیقی صورتحال کا ادراک اور اس حوالے سے لائحہ عمل مرتب کریں گے ۔
یہ بات انہوں نے پیر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پراظہار خیال کرتے ہوئے کہی ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن کی والدہ کے ساتھ بدکلامی کی مذمت کرتا ہوں یہ ایک شخص کا فعل ہوسکتا ہے
ادارے کا نہیں مولانا ہدایت الرحمن نشاندہی کریں ہم ملوث اہلکار کو سزا دیں گے سیکورٹی فورسز ہمارے لئے ہی 20،20لاشیں اٹھا رہی ہیں ریاستی ادارے مجر م نہیں بلکہ مجرم وہ ہیں جو بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور شاہراہوں پر عوام کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں
۔انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ قلات میں شہید اہلکار معصوم نہیں تھے ان الفاظ کو کاروائی سے حذف کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 5ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے بلوچستان کے لوگوں اور بلوچوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ انہیں ایک لاحاصل جنگ میں دھکیلا جارہا ہے کالعدم تنظیمیں 200خود کش بمبار بھی تیار کرلیں تو کیا وہ تشدد سے ریاست اور ملک توڑ سکتے ہیں ؟
۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو خود مختاری، حقوق پارلیمنٹ نے دئیے ہیں یہ حقوق کی جنگ نہیں لڑ رہے سال 2000کے تربت اور آج کے تربت میں زمین آسمان کا فرق ہے تو پھر وہاں کیوں شدت پسندی ہے ؟
انہوں نے کہا کہ غیر متوازن ترقی سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور ان پر بات ہوسکتی ہے بلوچوں کو دیکھنا ہوگا کہ کون انکی خدمت کر کے مائوں بہنوں کو آکسفورڈ بھیج رہا ہے اور کون انہیں خودکش بمبار بنا رہا ہے بلوچ قوم کی خدمت ہم کر رہے ہیں یا وہ جو انہیں جنگ میں دھکیل رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ امن وامان پر ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اس لئے کہا ہے تاکہ اس پر کھل کر بات کی جاسکے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی مفاد کے لئے کھل نہیں بولتے آج لوگ معروف بیانیہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ سیاسی مفاد دیکھتے ہیں مگر ریاست ہمارے لئے سیاسی مفاد سے بڑھ کر ہے لوگوں کو ریاستی اداروں کے خلاف تقایر کرنے کا مزہ آگیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 600بار مذاکرات کرنے کا کہہ چکا ہوں حکومت اور ریاست مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنے اور بے گناہ لوگوں کے قتل پر کب تک خاموش رہیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ کیا ہم موت سے خوفزدہ ہیں ؟زندگی کی حفاظت موت خود کرتی ہے وہ بی ایل اے یا کسی اور تنظیم کے ہاتھ مہیں نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مخبری کے نام پر قلات کے 80سالہ بزرگ اور تربت کے نوجوان کو قتل کیا گیا آئے روز لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تشدد کا اختیار صرف ریاست کے پاس ملک کو کیک کی طرح کاٹنے کی کوشش ہورہی ہے کہا جاتا ہے کہ لوگ پر امن جلسہ کرنے جارہے ہیں میرا سوال ہے کہ اگر یہ لوگ پر امن ہیں تو پاکستان کا جھنڈا کیوں جلاتے ہیں ؟
اپنی تقاریب میں خود ساختہ بلوچ قومی ترانہ کیوں چلاتے ہیں ؟ آزادی کا حلف کیوں لیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ فورسز میں خامیاں ضرور ہونگی ان کی اصلاح کی ضرورت ہے ہم ان کی اصلاح کریں گے 18،18لاشیں اٹھانے کے بعد انہیں اسمبلی میں گالیاں دی جاتی ہیں یہ چوک نہیں بلوچستان اسمبلی ہے اس کے تقدس کاخیال رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں سیکورٹی صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے ہم بامعنی بحث کرکے اسکا حل نکالنا چاہتے ہیں ۔
Leave a Reply