قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تقریباً 25 ہزار افراد نے سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے کثیر سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے میں خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) نذیر احمد بٹ نے پاکستان کے انسانی اور مالی وسائل کو برقرار رکھنے کے لیے برین ڈرین اور کیپیٹل فلائٹ، دونوں کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان کی عالمی اقتصادی حیثیت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو یورپی یونین کی جی ایس پی پلس ترجیحی ٹیرف اسکیم جیسے تجارتی معاہدوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مسابقت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے، انہوں نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور سافٹ ویئر کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
کے سی سی آئی کی پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اگر قوم ترقی پر اپنی توجہ اور لگن برقرار رکھے تو پاکستان اگلے 6 سے 7 سال میں ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے ملک کے زرعی شعبے میں موجود مواقع پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صرف چاول کی برآمدات 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جب کہ مجموعی زرعی برآمدات 9 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، پاکستان زراعت کی درآمدات پر مبنی معیشت سے برآمدات پر مبنی معیشت کی طرف منتقل ہو گیا ہے، یہ ایک مثبت رجحان ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین نیب نے کاروباری برادری کو غیر منطقی مقدمات سے نمٹنے میں زیادہ سے زیادہ ریلیف کی یقین دہانی کراتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بیورو کسی بھی محکمے کی جانب سے ہونے والی ہراسانی کے ازالے کے لیے مداخلت کرکے کاروباری اداروں کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے تاجروں کو بتایا کہ تاجر برادری کے 14 مقدمات میں سے 13 کو 6 ماہ کے اندر حل کر دیا گیا ہے، جو نیب کی معاملات کو تیزی سے حل کرنے کے لیے لگن کا مظہر ہے۔
نذیر احمد بٹ نے کے سی سی آئی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ 5 سے 6 انفرادی کیسز کے ساتھ 5 جنرل کیسز بھی پیش کرے جن کے حل کو نیب ترجیح دے گا، تاکہ تاجر برادری کے پریشان حال افراد کو فوری طور پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نیب میں تاجروں کو ہراساں کرنے کی روک تھام کے لیے نئے قوانین وضع کیے گئے ہیں، کے سی سی آئی، آباد اور دیگر متعلقہ اداروں کے اراکین کو شامل کرکے نیب کے بزنس مین فیسیلیٹیشن ڈیسک کو بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے سازگار کاروباری ماحول اور یکساں مواقع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نیب کبھی کبھار چیلنجز کے باوجود مسلسل کوششیں کرتا ہے، انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی امید کا اظہار کرتے ہوئے ملک کی بڑی آبادی اور بڑھتی ہوئی صارفین کی مارکیٹ کے فوائد کی نشاندہی کی جو طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے اہم مواقع پیش کرتے ہیں۔
بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کے چیئرمین زبیر موتی والا نے نشاندہی کی کہ خاص طور پر بدعنوانی اور ہراسانی کی روک تھام کے لیے اب بھی اہم کام کرنا باقی ہے، جس کی وجہ سے لوگ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
معاشی اشاریوں میں بہتری، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی اور آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے باوجود انہوں نے کاروباری برادری میں اعتماد کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا، جو مکمل معاشی بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر میں برآمدات میں 30 ارب ڈالر تک پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن متعدد محکموں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی وجہ سے اس صلاحیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
زبیر موتی والا نے برآمد کنندگان پر بجٹ اقدامات کے اثرات، خاص طور پر حتمی ٹیکس نظام (ایف ٹی آر) کے خاتمے اور اس کی جگہ عام ٹیکس نظام کو اپنانے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایکسپورٹ کارگو پروسیسنگ میں تاخیر کا جائزہ لینے کے لیے نیب کی مداخلت کا بھی مطالبہ کیا، اور نیب سے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے کے سی سی آئی میں سہولت ڈیسک قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان میں کاروباری ماحول خراب ہو چکا ہے، اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں کراچی چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔
جاوید بلوانی نے پورٹ قاسم پر زمین کے قبضے میں تاخیر سمیت متعدد مسائل اٹھائے جو 2 دہائیوں سے زیر التوا ہیں، انہوں نے ان دیرینہ مسائل کے حل اور متاثرہ اراضی مالکان کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے نیب سے مداخلت کا مطالبہ کیا۔
Leave a Reply