|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوگئے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت جسٹس محمد علی کے استفسار پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کُل 105 ملزمان تھے جن میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 20 کے بعد 19 مزید رہا ہوئے، اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر فریقین کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے، کورٹ مارشل کا بھی متبادل ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے، 9 مئی واقعات میں کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں، جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

درخواست گزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے سرسری دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل کی جانب سے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا بتایا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں یہ موقف اپنایا گیا تھا۔

سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ وکیل عابد زبیری کل دلائل جاری رکھیں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *