|

وقتِ اشاعت :   14 hours پہلے

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کسی نئے آپریشن کا آغاز کرنے کی بات ہی نہیں ہوئی، کوئی نیا آپریشن نہیں ہونے جا رہا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پھر اسی طرح پاکستان کی سیکیورٹی کے معاملے پر ہونے والی اس طرح کی بڑی میٹنگ سے باہر ہوئی، عمران خان اپنی حکومت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ سیکیورٹی کے اجلاس میں، وہ بھارت نے حملہ کیا ہو یا کوئی اور بڑا مسئلہ ہو، بیٹھنے سے انکاری رہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں وہ بیج بویا کہ جس کی وجہ سے آج ہر روز شہادتیں ہمارے نصیب میں لکھی گئی ہیں، نہ وہ پالیسی بنتی نہ ان جیٹ بلیک دہشت گردوں کو پاکستان میں بسایا جاتا، جو دنیا بھر کو مطلوب تھے، اسی طرح آج کے دن کے یہ حالات بھی پیدا نہیں ہوتے۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اسی اجلاس کے بارے میں کچھ بیانات دے رہے ہیں، اور کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس اعلامیے میں جو پاکستان کی تمام پارٹیوں کی قیادت نے متفقہ طور پر دیا، جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا خود موجود تھے، اس کی توثیق کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس پاس کیا بلکہ اس پر عمل کرنے کے عزم کو بھی دہرایا، انہوں نے کہا کہ کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کسی نئے آپریشن کا آغاز کرنے کی بات ہی نہیں ہوئی، کوئی نیا آپریشن نہیں ہونے جارہا۔

وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ نئے آپریشن کا شوشہ صرف کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے، بڑی وضاحت کے ساتھ قرارداد میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کو چلایا جائے گا، اور اس پر من و عن عمل کیا جائے، کسی نئے آپریشن کی بات نہیں ہوئی۔

 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوں اور پاکستان کے حکومتیں اور پاکستان کا کوئی ادارہ اس بات سے ہچکچائے کہ کارروائی نہیں کرنا چاہتا تو وہ کس کے ساتھ کھڑا ہے، اس کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو کہتا ہوں کہ اگر وہ دہشتگردوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تو ان کے دوست بن کر ان کے ساتھ بھی کھڑے نہ ہوں

طلال چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے ایک ہفتے بعد جعفر ایکسپریس کی مذمت کی ہے اور جس بیان میں کی ہے اور اس میں کیا کہا سیکیورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی تھی، خفیہ ایجنسیز اور سیکیورٹی فورسز انفارمیشن دیتی ہیں، مگر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ادارے اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ اس دی ہوئی انفارمیشن پر عمل کرسکیں۔

انہوں نے کہ بلوچستان میں 80 فیصد کے قریب بی ایریا ہے، جس میں لیویز ہیں، ان لیویز کی حاضری وہ 45 فیصد ہے، چھوڑ دیں کہ ان کی ٹریننگ کیا ہے اور ان کے پاس کونسے ہتھیار ہیں، جہاں بی ایریا اتنا ہو، نہ کوئی فورس ہو، نہ کوئی پولیس ہو، نہ کوئی باقی سیکیورٹی ایجنسیز ہوں، فوج کا کام تو نہیں ہے کہ ٹرین کی حفاظت کریں۔

وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج کا کام ہے کہ وہ آپ کی سڑکیں کھلوائیں، یا ان کا کام ہے کہ اس طرح کے جو واقعات ہیں، سب سے پہلے وہ پہنچیں، ان کو تو اس وقت بلاتے ہیں، جب معاملات باقی سیکیورٹی فورسز سے کے بس سے باہر ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ بار بار کہتے ہیں کہ یہ حساس اداروں کی ناکامی ہے، حساس ادارے خیبرپختونخوا میں کس کو معلومات دیں؟ محکمہ سی ٹی ڈی تو کرائے کی عمارت میں ہے، اس اجلاس میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ 800 ارب روپے این ایف سی کا ایک فیصد پچھلے 20 سال سے خیبرپختونخوا میں جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں پچھلے 13 سال سے ایک پارٹی کی حکومت ہے، وہ صرف اتنا بتا دے کہ اس 800 ارب میں سے کیا 8 ارب روپے سی ٹی ڈی یا دہشتگردی کے خلاف جنگ پر کسی پولیس پر یا کسی ادارے پر لگائے، کہاں گئے وہ پیسے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *