سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے جواب الجواب دلائل جاری رکھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ میں بھی کچھ بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، رینجرز اور ایف سی اہلکار نوکری سے نکالے جانے کے خلاف سروس ٹربیونل سے رجوع کرتے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا پولیس میں آئی جی اپیل سنتا ہے، یا ایس پی کیس چلاتا ہے؟ بھارت میں بھی آزادانہ فورم دستیاب ہے، ایف آئی آر کے بغیر نہ گرفتاری ہو سکتی ہے نہ ہی مجسٹریٹ کے آرڈر کے بغیر کسی کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی واقعات کے ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے، فوج نے براہ راست کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ذریعے سویلین کی حوالگی فوج کو دی گئی، حراست میں دینا درست تھا یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کے مستقبل کے لیے بہت گہرے اثرات ہونگے، ایف بی علی کیس پر آج بھی اتنی دہائیوں بعد بحث ہو رہی ہے۔ عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے، عدالت نے خواجہ حارث کو کل تیس منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث کے بعد کل ہی اٹارنی جنرل کو بھی سنیں گے، خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ججز کے سوالات زیادہ نہ ہوتے تو آج ہی مکمل کر لیتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کل کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دیں، کسی کو سوال نہیں کرنے دوں گی، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے میں یقین دلاتا ہوں اب کوئی سوال نہیں کروں گا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا آپ نے فیصل صدیقی کو ایف بی علی کا نام لینے سے روکا تھا، اب ہر روز ایف بی علی کا نام لیا جاتا ہے۔
Leave a Reply