بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں کا انکشاف ہوا ہے، پی اے سی نے مستحقین میں رقوم کی تقسیم میں بڑی خامیوں کی نشاندہی کر دی۔ غریبوں کے لیے مختص فنڈز سینئر سرکاری افسران اور اُن کی بیگمات نے ہڑپ کرلیے۔ سینکڑوں کیسز میں میاں بیوی دونوں میں رقوم بانٹ دی گئیں۔ سیلاب سے متاثرہ کسانوں میں سبسڈی کی تقسیم میں پونے تین ارب روپے کی مالی بے ضابطگی سامنے آئی۔
پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزارت تخفیف غربت کے مالی سال 2022-23 کے آڈٹ اعتراضات اور 14 ارب روپے کی مالی بے ضابطیوں کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ گریڈ 1 سے 20 کے سرکاری ملازمین بی آئی ایس پی فنڈز سے فائدہ اٹھاتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق 2022،23 کے دوران 8 کروڑ 98 لاکھ نکلوائے گئے۔ سندھ کے 2 ہزار 235سرکاری ملازمین اور اُن کی بیگمات نے مستحقین کی رقم پر سب سے زیادہ ہاتھ صاف کیے۔ اس کے علاوہ پنشنرز کے 704 فیملی ممبرز بھی بی آئی ایس پی سے مستفید ہوئے۔
ناجائز فنڈز لینے والوں میں گریڈ 20 کا ایک حاضر سروس اور دو ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں۔ چیئرمین پی اے سی نے ان افسران کے نام شائع کرنے اور ریکوری کی ہدایت کر دی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 68 کروڑ 16 لاکھ روپے کی غیرقانونی ادائیگیاں کی گئیں۔
آڈٹ حکام کے مطابق 27 ہزار کیسز میں بے نظیر انکم ایمرجنسی کیش امداد دونوں میاں بیوی کو دی گئی۔ پی اے سی نے ایک ماہ میں ذمہ داروں کے تعین کی ہدایت کر دی۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں میں گندم کے بیج پر سبسڈی میں 2 ارب 77 کروڑ کی بےضابطگی ہوئی۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ بی آئی ایس پی کے تحت متعلقہ اضلاع اور صوبے کے باہر اے ٹی ایم سے 83 کروڑ 97 لاکھ روپے نکلوائے گئے۔پی اے سی نے ایک ماہ میں فیکٹ فائینڈنگ رپورٹ طلب کر لی۔
اجلاس میں چیئرمین واپڈا پر تنقید کی پاداش میں ثنا اللہ مستی خیل کے ڈیرے سے بجلی کاٹنے کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ عمر ایوب نے کہا کہ یہ پی اے سی کے پورے عمل کی تذلیل ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے معاملہ سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے اٹھانے کا اعلان کردیا۔
Leave a Reply