کوئٹہ (آن لائن) جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر اور رکن صوبائی اسمبلی مولاناہدایت الرحمان بلوچ نے صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ایک سالہ کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں صوبے میں کرپشن ، بد امنی اور بے روزگاری بڑھی ہے
گزشتہ سال کو خونی سال بھی قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے ہم نے بلوچستان اور یہاں پر بسنے والوں کے بہتر مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو بجٹ تجاویز کے لئے 30 نکات پر مشتمل تجاویز دی ہے یہ تجاویز جمہوری فورم اور ایوان سمیت حکومت کو دیں گے تاکہ ان پر عمل کرکے صوبے کی بہتری کو یقینی بنایا جاسکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پارٹی کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری مرتضی خان کاکڑ، نائب امراء مولاناعبدالکبیرشاکرزاہداختربلوچ مولانامحمدعارف دمڑ،عبدالولی خان شاکرسمیت دیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے تمام بند سکولوں کوفعال بناکر تمام بنیادی سہولیات پانی،بجلی،بیت الخلا،تفریح کے مواقع فراہم کرے۔
اور تمام ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں جدید بنیادی سہولیات فراہم کرکے بند بی ایچ یوز کو فعال اور ایم ایس ڈی کو موثر توانائی فراہم کرکے صوبے میں مفت وقتی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیز کی ادویات فراہم کرنے کے قابل بنایا جائے اور پینے کے صاف پانی کی سپلائی یقینی بنائی جائے اور رکاوٹوں کو دور کرکے ٹینکر مافیا کا راج ختم کیا جائے صوبے کے تمام اضلاع میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جاے۔
نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار دینے کے ساتھ ساتھ انہیں خود کفیل بنایا جائے۔کینسر، تھیلسمیا، گردہ، جگر اور دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کو سوشل ویلفیئر کے ذریعے جدید کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت مفت فوری علاج کی سہولت دی جائے۔ اور بلوچستان کے تمام اضلاع کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں کے لئے ماہانہ وظائف کا اجراء یقینی بنایا جائے۔ بلوچستان کی تمام اہم مساجد، اقلیتی عبادت گاہوں کے یوٹیلٹی بل حکومت ادا کرے ۔
صوبے میں کرپشن کے خاتمے کے لئے سخت قانون سازی کی جائے اور سرکاری اداروں میں فیول اور گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے بے ضابطگیوں کا نوٹس لیکر کارروائی کی جائے۔
اور بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی گاڑیاں استعمال کرکے فیول کی بچت کی جائے۔
حکومت سرکاری تقریب مہنگے ہوٹلوں میں منعقد کرنے پر پابندی لگائے تاکہ عوام کا پیسہ ضائع نہ ہو اور عوام کے پیسوں سے مفت کے کھانے، حج اور عمروں پر پابندی لگائی جائے۔
بیورو کریسی، وزراء اور آفیسران اپنی جیب سے مہمانداری کرنے کا پابند بنایا جائے۔
وزراء اور بیورو کریسی کو بلا وجہ سرکاری خرچ پر بیرون ملک کے دوروں پر پابندی لگائی جائے اور بلوچستان پولیس کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کی جائیں۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر ہائوس، بیورو کریسی کے گھروں میں کفایت شعاری کا نظام رائج کیا جائے۔ اور صوبے میں آنے والی پے درپے قدرتی آفات کی وجہ سے بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیکر گھریلو صارفین کے سابقہ بل معاف کئے جائیں اور وفاقی حکومت پر زور دیا جائے تاکہ سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان پر خرچ ہوسکے کیونکہ بلوچستان اس حوالے سے نذر انداز کرکے محروم رکھا گیا۔
سیاسی بنیادوں پر زکواۃ فنڈ اور عشر کے نظام کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں حکومت کمزور طبقوں، مظلوم یتیم، غریب مساکین ، فقیر ، بیوائوں ، معذور اور بے روزگار طبقات کی سرپرستی کیلئے منصوبہ بنائے اور بلوچستان میں تمام ترقیاتی کاموں کو بروقت مکمل کرنے کے لئے معیار کو ترجیح دی جائے سالوں سے جاری منصوبوںکو فوری مکمل کیا جائے۔
اجتماعی مفاد کے منصوبوں کو ترجیح دیکر انفرادی پروجیکٹ کو شامل نہ کیا جائے اور پی ایس ڈی پی کے حوالے سے تمام منتخب نمائندوں کواعتمادمیں لیا جائے تاکہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر نمائندوں کو نذر انداز نہ کیا جاسکے۔ اور معدنیات وسائل کو آمدن کا ذریعہ بناکر بلوچستان پر خرچ کیا جائے بڑی کمپنیوںکو وسائل لوٹنے کی اجازت نہیںدی جائے تاکہ ان فوائد سے عوام اور صوبہ مستفید ہوسکے ماہی گیروں کیلئے خصوصی پیکج جس میں ماہی گیری کی خریداری اور ماہی گیری کارڈ کا اجراء کیا جاے۔ اور کسانوں کی سہولت کے لئے آسان کارڈ کا اور خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے چمن سے گوادر تک بارڈر ایریا کی سرپرستی کرکے بارڈر مارکیٹ بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع دینے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس اور کم فیس والے سکولوں کی سرپرستی کی جائے۔ لوکل کونسلز کو انتظامی مالی اختیارات دیکر خصوصی فنڈ جاری کیا جائے تاکہ صوبے کے تمام دیہی علاقوں میں مواصلاتی نظام پینے کا صاف پانی ، بجلی، تعلیم علاج معالجے کی سہولت مہیا ہوسکے اور حکومت سی پیک کی مد میں نوجوانوں کیلئے چائنا میں مفت ٹیکنیکل تعلیم دلوانے کا منصوبہ بناکر کم از 10 لاکھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کریں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت غیر منتخب اور طاقتور حلقوں کے ذریعے وسائل خرچ کرنا چاہتی ہے جو درست نہیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حالت زار کے حوالے سے ہمارا پر امن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے 25 مئی کو نوجوانوں کا فورم اور خواتین کانفرنس کے علاوہ مدارس اور تعلیمی اداروں کے طلباء کے پروگرام ترتیب دے رکھے ہیں انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اور ان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سے مطمئن نہیں اس میں کرپشن ، بدامنی بڑھی ہے اور گزشتہ سال کو بدامنی کی وجہ سے خونی سال قرار دیا جاسکتا ہے۔
کیونکہ وزیر اعلیٰ کے اختیارات نہیں حکومت کوئی اور چلارہا ہے ہم ا صلاح چاہتے ہیں اور اپنا فرض پورا کرنے کے لئے عوام کی بہتری کے لئے بجٹ تجاویز جمہوری فورم، پارلیمان اور حکومت کو دیں گے یہ ان کی مجبوری ہے کہ انہوں نے دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے کس کے ساتھ چلنا ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک ون میں کچھ نہیں ملا تو ٹو میں کیا ملے گاجس کے لئے ہم سراپا احتجاج ہے۔
Leave a Reply