سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کو نشستیں دینے والے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ فیصلے میں آئین ری رائٹ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے براہ راست نشر کی جانے والی سماعت میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے پی ٹی آئی کو نشستیں دینے والے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ بنیادی حقوق آپ کو پیدائشی طور پر ملتے ہیں، ووٹ کا حق تو آپ کو ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد ہی ملتا ہے، کئی بار تو نیب بھی لوگوں کو الیکشن لڑنے سے روکتا ہے، ووٹ کا حق تو قانون سے ملتا ہے، یہ قدرتی بنیادی حق نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کیا جمہوریت یا عوامی امنگوں کیلئے جج اپنے فیصلوں سے آئین کو بدل سکتے ہیں ؟کیا جج آئینی حدود سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں ۔ کیا جج آئین دوبارہ لکھ سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے پاس تو بڑے بڑے قانونی دماغ ہیں، اتنی غلطیاں کیسے ہوئیں؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی بڑے بڑے دماغ ہیں، پھر بھی بڑے فیصلوں میں غلطیاں کیسے ہوتی ہیں؟، سب کچھ قانونی دماغوں سے ہی ٹھیک ہوتا تو سپریم کورٹ کی کیا ضرورت تھی۔
وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ 11 ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا،39 امیدواروں کی حد تک میں اور قاضی فائز بھی 8 ججز سے متفق تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کوپارٹی تسلیم کیا، جسٹس یحیی آفریدی نے بھی کہا پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پورا پاکستان دیکھ رہا ہے،میں اقلیتی فیصلہ بھی پڑھنا چاہوں گا، میں جسٹس امین کے فیصلے سے متفق نہیں مگر بڑا جاندار فیصلہ تھا۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ فیصل صدیقی آپ باربارپیچھے کی طرف جا رہے ہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کے سامنے پہلی بار 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی آئی، جس فیصلے پر نظرثانی آئی وہ ابھی تک آپ کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا، حیرت ہے آپ کہتے ہیں اکثریتی فیصلہ نظرثانی میں پڑھا ہی نہ جائے؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ کچھ درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز کو مدنظر نہیں رکھا گیا، استدعا ہے کہ ان درخواستوں کو مسترد کیا جائے، مجھ سے پوچھا گیا تھا سنی اتحاد کا انتخابی نشان کیا ہے؟ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے مگر حامد رضا آزاد لڑے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے کہ کون کیسے لڑا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ میرا سوال تھا،مگر مجھے تسلی بخش جواب نہیں ملا، صاحبزادہ حامد رضا کی سیاسی جماعت 2013 سے ہے، جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھر پارلیمانی جماعت کیوں بنائی؟
جسٹس امین الدین نے وکیل فیصل صدیقی کو کہا کہ آپ کو دلائل کے لیے مزید ایک سماعت ملے گی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے کم ازکم 2 سماعتیں اور چاہئیں ہوں گی، میں نے ابھی دلائل تو دیئے ہی نہیں ہیں، ایسا لگتا ہے نظرثانی میں نے دائر کی ہے،سارے سوال مجھ سے ہو رہے ہیں، جنہوں نے نظرثانی دائر کی ان سے تو کوئی سوال ہی نہیں ہوا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔
Leave a Reply