|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

نیویارک میں موجود بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد نے منگل کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حکام سے ملاقات کی، اور پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع کے تناظر میں پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔

اعلیٰ سطح کے وفد میں سابق وزرائے خارجہ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر، خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمٰن، مصدق ملک، فیصل سبزواری، بشریٰ انجم بٹ، جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔

پاکستان کا یہ وفد واشنگٹن ڈی سی، لندن اور برسلز کا بھی دورہ کرے گا۔

ایک پریس ریلیز کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے او آئی سی کے مستقل نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کو بغیر کسی قابلِ اعتبار تحقیق یا ثبوت کے سختی سے مسترد کر دیا۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بھارت نے پہلگام حملے کے الزام کو غیر قانونی فوجی کارروائیوں، سرحد پار حملوں کا جواز بنانے کے لیے استعمال کیا، جن میں شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اقدام پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جسے پاکستان نے ’پانی کو ہتھیار بنانے اور بین الاقوامی و معاہداتی ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ بلاول نے واضح کیا کہ ہم اس طرز عمل کو معمول نہیں بننے دے سکتے، بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث دنیا ایک کم محفوظ جگہ بن گئی ہے، جس کے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی پر حقیقی اور فوری اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سابق وزیر خارجہ نے او آئی سی کی طرف سے ثالثی کی کوششوں اور دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کردار پر شکریہ ادا کیا اور واضح کیا کہ امن کا واحد راستہ بات چیت، روابط اور سفارت کاری ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بلاول نے امن، صبر و تحمل، اور سفارت کاری سے وابستگی کا اعادہ کیا اور مطالبہ کیا کہ سندھ طاس معاہدہ بحال کیا جائے، جنگ بندی کا مکمل احترام کیا جائے اور بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا جائے، جس کی بنیاد جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر ہو۔

ادھر، او آئی سی ممالک کے مستقل نمائندوں نے ’پاکستان کی بروقت اور شفاف بریفنگ پر شکریہ ادا کیا اور پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کیا‘۔

انہوں نے جنوبی ایشیا میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں، بشمول معاہدوں جیسے کہ سندھ طاس معاہدے کی حرمت، کی پاسداری پر زور دیا۔

وفد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جون کی صدر، جمہوریہ گیانا کی مستقل مندوب، سفیر کیرولین روڈریگس-برکیٹ سے بھی ملاقات کی۔

وفد نے اس بات پر زور دیا کہ یکطرفہ اقدامات اور کشیدگی میں اضافے کے بڑھتے رجحان کے پیش نظر، سلامتی کونسل کو امن اور تنازعات کے حل کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرنے، بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کا احترام یقینی بنانے، اور تنازعات کے پرامن حل کے فروغ میں فعال کردار ادا کرے، جن میں جموں و کشمیر کا تنازع بھی شامل ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بیان کیا گیا ہے۔

سفیر کیرولین روڈریگس-برکیٹ نے بین الاقوامی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے مطابق اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔

اس سے قبل، 9 رکنی پاکستانی وفد نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں متعدد ملاقاتیں کیں، انہوں نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے سفیروں سے ملاقات کا آغاز چین کے سفیر فو کانگ سے کیا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *