|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے175 کھرب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔

ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

دفاعی بجٹ کیلئے دو ہزار 550ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی۔

جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے۔

حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے۔

نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے۔

ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے۔

پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے۔

بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے۔

گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے۔

جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے۔

تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ۔

انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی گئی۔

تنخوادار طبقے اور پراپرٹی پر ریلیف ملے گا۔

سولر پینل پر 18فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

تمام گاڑیوں کے سیلز ٹیکس کو یکساں کیا جائیگا۔

پٹرول، ڈیزل استعمال کرنے والی یا ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں یکسانیت لائی جائیگی۔

اٹھارہ فیصد سے کم سیلز ٹیکس والی تمام گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔

ای کامرس پلیٹ فارمز ترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں سے 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا مگر کوئی منی بجٹ نہیں آیا نا کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا۔

کے پی اور بلوچستان کے ضم اضلاع کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی۔

شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن 10 سال تک محدود۔

دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی منظوری۔

چھ ڈویژنز کو ضم کر کے تین ڈویژن بنادیئے گئے۔

پینتالیس کمپنیوں اور اداروں کو پرائیوٹائز، ضم یا ختم کیا جائیگا۔

چالیس ہزار پوسٹیں ختم۔

اگلی دس وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی سفارشات حتمی شکل دیدی گئی ہے۔

نئی انرجی وہیکل پالیسی منظور کی گئی ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دی جائے گی۔

الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کیلئے لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

لیوی معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اور درآمد پر انجن کی طاقت کے مطابق عائد ہوگی۔

سالانہ 20 کروڑ سے 50 کروڑ روپے آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

جائیداد کی خریداری پر ٹیکس میں کمی ہوگی۔

پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے اور تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے۔

کم آمدن طبقے کو گھر خریدنے یا تعمیر کیلئے سستے قرضوں کا وعدہ ہے۔

حکومت نے سستی بجلی کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی کر لی ہے جس سے آنے والے دنوں میں سستی بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔

بجلی چوری کی روک تھام کیلئے لوڈ شیڈنگ، سرچارج اور لائن لاسز ختم کرنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔

بجلی بلوں سے سرچارج ختم کیا جارہا ہے۔

موسمی ایندھن پر انحصار کم کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔

قلیل مدتی توانائی منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

چھوٹے پن بجلی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

کروڑوں روپے کی لائن لاسز کی مد میں چوری کا خاتمہ کیا جائیگا۔

گیس اور بجلی کے صارفین کا ڈیٹا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو فراہم کیا جائیگا۔

بجلی اور گیس کے غیر رجسٹرڈ صنعتی اور تجارتی صارفین کو رجسٹرڈ کیا جائیگا۔

روایتی گیس اسٹووز پر مرحلہ وار پابندی عائد کی جائے گی۔

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ اور احتجاج کیا گیا۔

بجٹ 2025-26 میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے، سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور پنشن اصلاحات لانے کی تجاویز دی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ معاشی ترقی کی رفتار 3.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

سالانہ مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک آجائے گی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

شرح سود میں کمی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے نجی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔

تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے 5.5 فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

2023-24 میں معیشت میں بتدریج بہتری آئی۔

2023-24 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معیشت کی سمت درست کی گئی۔

مجموعی قومی پیداوار 3.6 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔

زرعی ترقی 6.3 فیصد، صنعتی ترقی 2.4 فیصد اور خدمات کے شعبے میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے کی تیاری کر لی ہے۔

مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادوں پر ملک میں معاشی اصلاحات کی جائیں گی۔

ملک میں بجلی کی طلب 40 ہزار میگاواٹ سے بڑھنے کی توقع ہے۔

تھوک مارکیٹ میں مسابقتی نیلامی سے بجلی خریدی جائے گی۔

نئی پاور پالیسی کے تحت بجلی گھروں کو میرٹ پر چلایا جائے گا۔

وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 18 ہزار 877 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔

وفاقی بجٹ میں 12 ہزار 970 ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔

وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کیا۔

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ اور احتجاج کیا گیا۔

تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ گریڈ 1 تا 16 کے ملازمین کے لیے ہوگا۔

گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ ہوگا۔

وفاقی پنشنرز کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کی بحالی حکومت کی ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جدید معیشت بنانا چاہتے ہیں۔

بجٹ تقریر کے مطابق، مالی خسارہ جی ڈی پی کے 5.9 فیصد تک لانے کا ہدف ہے۔

بجلی چوری کی روک تھام کیلئے لوڈ شیڈنگ، سرچارج اور لائن لاسز ختم کرنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔

بجلی بلوں سے سرچارج ختم کیا جارہا ہے۔

موسمی ایندھن پر انحصار کم کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔

قلیل مدتی توانائی منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

چھوٹے پن بجلی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

کروڑوں روپے کی لائن لاسز کی مد میں چوری کا خاتمہ کیا جائیگا۔

گیس اور بجلی کے صارفین کا ڈیٹا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو فراہم کیا جائیگا۔

بجلی اور گیس کے غیر رجسٹرڈ صنعتی اور تجارتی صارفین کو رجسٹرڈ کیا جائیگا۔

روایتی گیس اسٹووز پر مرحلہ وار پابندی عائد کی جائے گی۔

بجٹ 2025-26 میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے، سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور پنشن اصلاحات لانے کی تجاویز دی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ معاشی ترقی کی رفتار 3.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

سالانہ مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک آجائے گی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

شرح سود میں کمی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے نجی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔

تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے 5.5 فیصد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

2023-24 میں معیشت میں بتدریج بہتری آئی۔

2023-24 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معیشت کی سمت درست کی گئی۔

مجموعی قومی پیداوار 3.6 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔

زرعی ترقی 6.3 فیصد، صنعتی ترقی 2.4 فیصد اور خدمات کے شعبے میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے کی تیاری کر لی ہے۔

مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام کی بنیادوں پر ملک میں معاشی اصلاحات کی جائیں گی۔

ملک میں بجلی کی طلب 40 ہزار میگاواٹ سے بڑھنے کی توقع ہے۔

تھوک مارکیٹ میں مسابقتی نیلامی سے بجلی خریدی جائے گی۔

نئی پاور پالیسی کے تحت بجلی گھروں کو میرٹ پر چلایا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *