|

وقتِ اشاعت :   November 13 – 2018

بلوچستان میں جعلی اور ملاوٹ شدہ خوردنی اشیاء کی فروخت کے حوالے سے کوئی روک تھام دیکھنے کو نہیں ملتا کیونکہ حکومتوں کی ترجیحات میں یہ کبھی شامل ہی نہیں رہا ہے جسے تاریخ کے کسی بھی دورمیں اچھی حکمرانی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ 

صوبے بھر میں ہر چیز ملاوٹ شدہ ہے ،گزشتہ سال یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ بلوچستان میں آٹے میں پلاسٹک اور ربڑ کی ملاوٹ کی گئی تھی اور یہ ملوں کے اندر کی گئی تھی دکانوں میں نہیں، مگر اس کے باوجود ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ 

گزشتہ روز کراچی کے علاقے زمزمہ میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد دو بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ والدہ بھی شدید متاثر ہوئی، وثوق سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اموات کھانے سے ہوئی ہیں تاہم معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور سندھ فوڈ اتھارٹی نے ریسٹورنٹ کو سیل کردیا ہے جبکہ ریسٹورنٹ میں موجود غذائی اجناس کو قبضہ میں لے کر اس کو ٹیسٹ کیا جارہاہے تاکہ واقعہ کے اصل محرکات کا پتہ چل سکے۔ 

بات کریں بلوچستان کی تو بدقسمتی ہمارے ہاں فوڈ اتھارٹی کے قیام کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی جو ریسٹورنٹس، فوڈ پوائنٹس اور دیگر اشیاء خورد و نوش کی کوالٹی کو چیک کرسکے اور صفائی کے انتظامات کا بھی جائزہ لے سکے۔ 

اس معاملے میں انتظامیہ کا بھی کوئی کردار نظر نہیں آرہا، کیا کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے کے بعد اس معاملے پر غور کیا جائے گا، لہذا موجودہ حکومت اس جانب توجہ دیتے ہوئے فوری طور پر بلوچستان میں پنجاب اور سندھ حکومت کی طرز پر فوڈ اتھارٹی قائم کرے۔ بلوچستان میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید لیبارٹری بھی بنائی جائے تاکہ ملاوٹ شدہ اشیاء کی فوری چھان بین ہوسکے۔ 

سب سے پہلے کھانے کے تیل اور گھی کا لیب ٹیسٹ ہونا چائیے کہ یہ معیاری ہے یا غیر معیاری کیونکہ جعلی تیل اور گھی اکثر و بیشتر کوئٹہ کے بعض علاقوں میں گھروں میں تیار کیاجاتا ہے جو عوام کیلئے زہر ہے۔ صحت عامہ سے متعلق معاملات میں حکومت کو کسی سست روی کا مظاہرہ نہیں کرنا چائیے۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان فوری طورپر بلوچستان میں فوڈ اتھارٹی قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے اور کم سے کم مدت میں اس کے قیام کو عمل میں لایا جائے تاکہ عوام کو صاف ،شفاف اور ملاوٹ سے پاک غذائی اجناس میسرہوسکیں۔

یہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ کوئٹہ شہر میں اس وقت سینکڑوں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس ہیں جہاں شہریوں کی بڑی تعداد کھانا کھانے یا مشروب پینے کے لیے جاتی ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ فورڈ اتھارٹی کے قیام سے نہ صرف ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس کے کھانے کی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ عوام کو بغیر ملاوٹ کے غذائی اجناس کی سہولت بھی میسر آئے گی اورفورڈ پوائزننگ کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔