پاکستانی سینیٹر اور انسانی حقوق کی کارکن کرشنا کماری کو بی بی سی 2018 کی 100 بااثر اور متاثر کن خواتین میں شامل کیا گیا ہے ۔
برٹش براڈ کاسٹ کارپوریشن (بی بی سی) گزشتہ چند برسوں سے خواتین کو درپیش مسائل کے خلاف جدوجہد کرنے پر ان کی کوششوں کے اعزاز میں دنیا بھر کی 100 بااثر اور متاثر کن خواتین کی فہرست جاری کرتا ہے۔
دنیا کے 60 ممالک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی 15 سال سے 94 سال تک کی منتخب کردہ ان 100 خواتین نے حقوقِ نسواں سے متعلق خدمات سر انجام دی ہیں۔
رواں برس اس فہرست میں شامل واحد پاکستانی 39 سالہ کرشنا کماری ہیں ، جن کا تعلق ننگرپارکر کے پسماندہ گاؤں دھانا گام کی کوہلی برادری سے ہے اور وہ رواں برس مارچ میں سینیٹر بنی تھیں۔
انہوں نے کئی سال پاکستان میں جبری مشقت پر مامور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کیا ہے۔
وہ پاکستانی سینیٹ میں منتخب ہونے والی پہلی تھری ہندو خاتون ہیں۔
کرشنا کماری نے جبری مشقت کے خلاف آواز اس لیے اٹھائی کیونکہ بچپن میں اس تلخ حقیقت سے ان کاسامنا بھی ہوا تھا جب 3 سال تک انہیں اور ان کے خاندان کو عمر کوٹ میں ایک زمیندار کی جانب سے کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
بعد ازاں پولیس نے چھاپا مار کر انہیں اور ان کے خاندان کو بازیاب کروایا تھا۔
جبری مشقت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کے والدین نے ان پر تعلیم کے حصول پر زور دیا جس کے بعد انہوں نے عمر کوٹ اور میرپورخاص میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور سندھ یونیورسٹی، جامشورو سے سوشیالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی۔
انسانی حقوق سے متعلق دیگر ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد کرشنا کماری نے یوتھ سول ایکشن پروگرام کے لیے کام کیا جہاں انہوں نے جبری مشقت اور اس کا شکار ہونے والی خواتین سے متعلق تحقیق کی ۔
انہوں نے جبری مشقت، ملازمت کی جگہ پر جنسی ہراساں کیے جانے سمیت دیگر انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق سے متعلق ورکشاپس اور سیمینار منعقد کیے ۔
کرشنا کماری نے انسانی حقوق سے متعلق مختلف اخبارات کے لیے بھی لکھا۔
رواں برس جب انہیں سینیٹ کے لیے منتخب کیا گیا تو انہوں نے ’مظلوم افراد کے حقوق ، خواتین کے حقوق ، ان کی صحت اور تعلیم کے لیے کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا‘۔