حکومت بلوچستان نے صوبہ میں محکمہ تعلیم میں اصلاحات اور بہتری کیلئے تعلیمی ایکٹ 2018 متعارف کرانے کافیصلہ کیا ہے، ایکٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کے ہڑتال، احتجاج، بائیکاٹ کرنے والوں کو ایک سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جبکہ اساتذہ کو اکسانے اور مالی معاونت فراہم کرنے والوں کو 6ماہ قید 3لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا یادونوں سزائیں بیک وقت لاگو ہوسکتی ہیں۔
اساتذہ کے احتجاج کے دوران پولیس کو کسی وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی اساتذہ کے استعفے قبول ہونگے۔ حکومت بلوچستان کے مطابق تعلیمی ایکٹ 2018 کا مقصد بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات میں بہتری لانا ہے تاکہ تعلیمی ماحول میں خلل اور رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔ تعلیمی ایکٹ کی منظوری گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں دی گئی جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اسے بحث کیلئے پیش کیاجائے گا۔
بلوچستان میں ملک کے دیگر صوبوں جیسی تعلیمی سہولیات میسر نہیں ،اسی لیے یہاں کے طلباء دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ وہاں ان کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا جاتا ہے، وہ ایک اورالمیہ ہے۔بلوچستان کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے جس سے مجبور ہوکر لوگ پرائیویٹ اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں لیکن وہاں سے بھی انہیں مایوسی ہوتی ہے۔
ان سب مسائل کے علاوہ اساتذہ کے آئے روز کے ہڑتال بھی تعلیمی معیار گرانے کا سبب بن رہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور بعض سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے، اس طرح یہ اساتذہ بچوں کے مستقبل کے ساتھ نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ عوام کے پیسوں پر بہت بڑا مالی بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ رونا رویا جارہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی وسائل پر توجہ دی جائے تاکہ یہاں بہتری آسکے مگر بدقسمتی سے یہاں ایک ایسا مافیا موجود ہے جو تعلیمی ماحول کو خراب کررہاہے جس میں ایک عنصر اساتذہ کی بھی ہے جو اپنی تنظیموں کے ذریعے حکومتوں کو بلیک میل کرتی آرہی ہیں۔
گزشتہ حکومت نے جب ان پر ہاتھ ڈالا تو انہوں نے وہی پرانا طریقہ واردات استعمال کرتے ہوئے کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں احتجاج کرتے ہوئے تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا اور بعض اوقات یہ عناصر بلیک میلنگ کیلئے امتحانات کے دوران احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں جس کابرائے راست اثر بچوں کے مستقبل پر پڑتا ہے ۔
بلوچستان کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو بچوں کو بہتر تعلیم دینے سے قاصر ہیں جو خود میٹرک پاس نہیں ہیں ۔ دوسری جانب سرکاری ٹیچروں میں بعض اسکولوں میں ڈیوٹی نہیں دیتے جس کی وجہ سے بچوں کو بہترین تعلیمی ماحول فراہم نہیں ہورہا ۔
صوبہ میں ہونہار اور باشعور اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان نااہل اور مافیا ٹیچرز کاخود بائیکاٹ کریں جو بلوچستان کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں، صوبہ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے جس کیلئے ایک بڑی رقم بجٹ میں مختص کی گئی ہے مگر اس کے نتائج اب تک برآمد نہیں ہورہے۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے تعلیمی ایکٹ 2018ء کو متعارف کرانا تعلیم دوستی کا واضح ثبوت ہے جسے پہلے ہی لاگو ہوجانا چاہئے تھا مگر موجودہ حکومت نے یہ کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اب وہ ان مافیاز کے ہاتھوں محکمہ تعلیم اور حکومت کو یرغمال بننے نہیں دینگے بلکہ کام چور اور علم دشمن عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس طرح کے قوانین سے صوبہ میں تعلیمی میدان میں بہتری کے امکانات روشن ہونگے ۔
بلوچستان کے غریب والدین کیلئے یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے کہ اب ان کے بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کی جائے گی، امید ہے کہ اپوزیشن بھی صوبہ میں تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اس ایکٹ کی منظوری میں کردار ادا کرے گی۔