اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کی واپسی سے متعلق رپورٹ طلب کرلی جب کہ عدالت نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جیل میں ہلاکتوں کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے۔
سپریم کورٹ میں برطانیہ سے قیدیوں کی پاکستان منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں سیکریٹری داخلہ کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری داخلہ تو خود کو شہنشاہ سمجھتے ہیں، آج آخری موقع کے باوجود پیش نہیں ہوئے، سیکریٹری داخلہ کیوں پیش نہیں ہو رہے؟
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ سیکریٹری داخلہ کو 10 منٹ میں عدالت آنے کا حکم دے رہے ہیں، اگر 10 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو توہین عدالت کا نوٹس اور وارنٹ جاری کریں گے۔
سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے جس پر عدالت نے پہلے پیش نا ہونے پر ان کی سرزنش کی۔
جسٹس عظمت سعید نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کا کیا کرنا ہے؟ کیا بیرون ملک سے پاکستانیوں کی لاشیں ہی واپس لانی ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی جیل میں ہلاکتوں کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے۔
معزز جج نے مزید ریمارکس دیے کہ سیکریٹری داخلہ کوئی اور کام دیکھیں، وزارت داخلہ چلانا ان کے بس میں نہیں، ایسے سیکریٹری داخلہ سے پاکستانی محفوظ نہیں ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ برطانیہ میں 423 قیدی جیلوں میں ہیں، تھائی لینڈ میں بھی پاکستانی جیلوں میں ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں شاکر اللہ 16 سال قید میں رہا، 16 سال بعد اس کی لاش واپس آئی۔
سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم قانون تبدیل کر رہے ہیں، اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ قانون نہیں سیکریٹری داخلہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
بعد ازاں عدالت نے بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کی واپسی سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔