اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود میں 50 بیسس پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ اگلے دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کو مہنگائی اور بجٹ خسارہ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق 2019 کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی آئی ہے، جس سے غیر یقینی کی کیفیت کو کم کرکے کاروباری اعتماد میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اعلامیے میں کہا کہ ‘جاری خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے’۔
مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘رواں مالی سال میں جولائی سے فروری تک مہنگائی 6 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ برس اسی مدت میں صرف 3 اعشاریہ 8 فیصد تھی، جبکہ رواں سال جنوری میں 7 اعشاریہ 2 فیصد اور فروری میں 8 اعشاریہ 2 فیصد تک جا پہنچی ہے جو 2014 سے اب تک کی بلند ترین اضافہ ہے’۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ‘فعال زری انتظام کے باوجود توانائی کی بلند قیمتوں اور شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالتی رہیں گی اور اس کے نتیجے میں رواں سال مہنگائی 6 اعشاریہ 5 فیصد سے 7 اعشاریہ 5 فیصد کے درمیان رہے گی’۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ ‘اقدامات کے باعث رواں مالی سال جولائی سے فروری تک جاری کھاتے کے خسارے میں 22 اعشاریہ 7 فیصد کمی آئی جو 8 ارب 80 کروڑ ڈالر ہوگئی جبکہ گزشتہ برس اسی مدت میں 11 ارب 40 کروڑ ڈاکر خسارہ تھا’۔
زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ‘بیرونی توازن میں بہتری کے ساتھ سرکاری رقوم کی آمد میں اضافے کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آئی ہے جو 25 مارچ کو 10 ارب 70 کروڑ ڈالر ہوگئے ہیں، اس کے باوجود ذخائر ابھی تک معیاری سطح سے کم ہیں تاہم کاروباری اعتماد میں اضافہ ہوا ہے’۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ‘ملک کے بیرونی کھاتوں میں وسط تا طویل مدت استحکام کے لیے نجی رقوم کی آمد میں اضافے کی ضرورت ہے اور تجارتی خسارے میں کمی کے لیے برآمدی اشیا میں پیداواریت اور مسابقت میں بہتری کے لیے اصلاحات درکار ہیں’۔
اعلامیے میں رواں مالی سال میں مالیاتی خسارہ ہدف سے تجاوز کر جانے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘اب تک مالیاتی خسارے کا خاصہ حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا گیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف زری پالیسی کی ترسیل میں پیچیدگیاں ہوں گی بلکہ اس کا اثر بھی کم ہوگا’۔
زری پالیسی کے حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘یکم جولائی سے 15 مارچ 2019 تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 3 کھرب 30 ارب روپے قرض لیا اور بینکوں کے 2 کھرب 20 ارب روپے واپس کیے، تاہم اس سے نجی شعبے کے قرضے کی طلب پوری کرنے میں سہولت ملی اور یہ قرضے 9 اعشاریہ 2 فیصد ہیں’۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ‘زری پالیسی کمیٹی نے پائیدار نمو اور مجموعی معاشی استحکام کے لیے مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت کی نشان دہی کی ہے کیونکہ مہنگائی کا دباؤ جاری ہے، مالیاتی خسارہ بلند ہے اور بہتری کے باوجود جاری کھاتے کا خسارہ بلند ہے’۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘زری پالیسی کمیٹی نے تفیصلی سوچ بچار کے بعد یکم اپریل 2019 سے پالیسی ریٹ کو 50 بی پی ایس بڑھا کر 10 اعشاریہ 75 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے’۔