مقامی حکومتوں کا معاملہ اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ہمارے یہاں گزشتہ 70سالوں کے دوران اختیارات وزیراعظم ،وزرائے اعلیٰ کے پاس رہے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے تمام باشندے ‘ خواہ کوئی ہو، ان کے ماتحت اور زیر نگیں رہے جو کہ غیر جمہوری رویہ ہے۔
ملک میں پہلے دس سالوں تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے وہ صرف اس لئے کہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں حکمران تقسیم اختیارات کے مخالف تھے خاص کر ایم پی اے حضرات بلدیاتی انتخابات کے سخت مخالف تھے۔ وجوہات واضح ہیں کہ اس سے ترقیاتی فنڈ زتقسیم ہوں گے اورا نہیں کم فنڈز ملیں گے اس لئے بلدیاتی ادارے مکمل طورپر فعال نہیں ہوسکے تاکہ بجٹ میں ان کے لئے الگ رقم مختص نہ ہو۔
اصولی طورپر ترقیاتی فنڈ کا پچیس فیصد قانون کے مطابق بلدیاتی ادارے خرچ کرتے ہیں۔ بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی آبادی منتشر ہے۔زیادہ تر حصہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے وہاں کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سطح پر بااختیار نمائندگی موجود نہیں اور نہ ہی ان کو وسائل فراہم کئے گئے۔ مقامی حکومتیں مکمل طورپر آزاد اور خود مختار ہوتیں تو صورتحال شاید کچھ اور ہی ہوتی۔
ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ ایم پی اے حضرات صرف اور صرف قانون سازی کرتے، وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے مگر ماضی میں اس کے برعکس سب کچھ ہوتا رہا، ترقی اور منصوبہ بندی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انتظامی معاملات میں مداخلت ان کا حق تھا۔جہاں تک ترقیاتی عمل کا تعلق ہے اگر مقامی حکومتوں کو مقامی طورپر منصوبہ بندی کرنے کا اختیار ملتا تو عوام کو شہری سہولیات فراہم ہوتیں، آب نوشی ، پانی کی نکاسی ‘ صحت و صفائی یہ سب مقامی سطح پر ہی ممکن ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے جس طرح کے پی کے کی مثال پیش کی کہ کس طرح وہاں مضبوط لوکل گورنمنٹ کی وجہ سے تبدیلی آئی اور وہاں کے دیہی علاقوں کے مسائل حل ہوئے اسی طرح انہوں نے بلوچستان میں بھی مضبوط لوکل گورنمنٹ کے قیام پر زور دیا۔ وزیراعظم عمران خان کی اس رائے سے مکمل اتفاق کیاجاسکتا ہے کہ بلوچستان میں نچلی سطح پر اختیارات کے ذریعے ہی صوبہ کو درپیش مسائل سے نکالا جاسکتا ہے۔
آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ بلدیاتی اداروں کو مکمل فعال اور بااختیار بنایاجائے، خاص کر پرائمری تعلیم مقامی حکومتوں کے حوالے کیے جائیں تاکہ بھوت اساتذہ اور بھوت اسکولوں کا مسئلہ حل ہو۔ اس کے بعد سیکنڈری اسکول کی تعلیم بھی مقامی حکومتوں کے حوالے کئے جائیں ان میں تمام مدارس کو ضلعی حکومتوں کے ماتحت کیاجائے اور ان کی الگ شناخت ختم کی جائے تاکہ دینی مدارس کا کوئی سیاسی استعمال نہ ہو اور اس کو وسیع تر تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔
بہر حال صوبائی حکومتوں کے اختیارات کو کم کیاجائے اور یہ اختیارات ضلعی حکومتوں کو دیئے جائیں تب جاکر بعض مسائل پر قابوپایاجاسکتا ہے وگرنہ بلوچستان کے مسائل کبھی حل نہیں ہونگے۔ مقامی حکومتوں کے قیام سے عام لوگوں کوچھوٹے مسائل کے حل کیلئے بڑے شہروں کا رخ کرنا نہیں پڑے گا بلکہ علاقائی سطح پر انہیں تمام سہولیات دستیاب ہونگی ۔
لہٰذا اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ مقامی نمائندگان کے معاملات میں کوئی مداخلت نہ ہو اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کیاجائے ۔ بلوچستان میں آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات اور ان کی کامیابی کیلئے دعا گوہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مقامی نمائندگان کو اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔
بلوچستان میں مضبوط بلدیاتی نظام
وقتِ اشاعت : April 1 – 2019