گزشتہ روز ہزار گنجی سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 20 افراد جاں بحق جبکہ 45کے قریب لوگ زخمی ہوئے ۔ وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگونے پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ ہزار گنجی میں ہونے والا حملہ خود کش تھاجس میں جاں بحق ہونے والوں میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 8 افراد کے علاوہ ایک سیکیورٹی اہلکار اور ایک بچہ بھی شامل ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبد الرزاق چیمہ نے جائے وقوع پر میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ آلو کے گودام میں ہوا۔دھماکے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ،جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کو سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔
سول ہسپتال میں 11 لاشیں لائی گئیں جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبد الرزاق چیمہ نے کہاکہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے سبزی اور پھل فروشوں کو سکیورٹی میں ہزار گنجی منڈی لایا گیا تھا۔ان کا کہنا تھاکہ جب ان لوگوں کو لایا جاتا ہے تو سکیورٹی اہلکار چار مرکزی دروازوں پر ڈیوٹی دینے کے علاوہ مارکیٹ میں بھی گشت کرتے ہیں۔
جب ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد آلوؤں کے گودام پر آئے تو زوردار دھماکہ ہوا۔ زخمیوں میں ہزارہ قبیلے کے علاوہ دیگر برادریوں کے لوگ بھی شامل ہیں اس لیے اس بات کا تعین تحقیقات کے بعد کیا جاسکے گا کہ اس حملے کا ہدف کون لوگ تھے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تو سب لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس علاقے میں پہلے بھی ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے سبزی اور پھل فروشوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ماضی میں ہونے والے حملوں کے پیش نظر انہیں مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن کے علاقوں سے سکیورٹی میں لایا اورواپس لے جایا جاتا ہے۔ان پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
ان حملوں کے پیش نظر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جن کے پیش نظر حکام کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے ان پر حملوں میں کمی آئی ہے۔
اس واقعہ کے خلاف ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نے کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا۔ مغربی بائی پاس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور انہوں نے ٹائر جلا کر شاہراہ کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا ۔ رواں سال میں یہ سب سے بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران کوئٹہ سمیت بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے ۔
البتہ دہشت گردی کا یہ واقعہ ماضی میں رونما ہونے والے سانحات سے ملتا جلتا ہے جوکہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد اور یہاں موجود ان کے سہولت کارکرتے رہے ہیں۔
بلوچستان میں سیکیورٹی پر خاص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ واقعہ ایک الارمنگ ہے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کوئٹہ میں سیف سٹی پروجیکٹ کو مکمل کیاجائے تاکہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے دہشت گردوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے اور بروقت ان سے نمٹا جاسکے۔ دوسری جانب پاک افغان سرحد پر بھی سیکیورٹی کے مضبوط انتظامات کئے جائیں تاکہ دہشت گرد سرحد پار کرکے تخریب کاری کرنے کی غرض سے داخل نہ ہوسکیں۔