بلوچستان تاریخی لحاظ سے شاندار روایات رکھتی ہے یہاں کے کلچر اور روایات میں رواداری اپنی مثال آپ ہے جس کی واضح مثال یہاں بسنے والے اقوام، مذاہب اور فرقوں سے لگایا جاسکتا ہے جو قدیم عرصہ سے یہاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے آرہے ہیں۔
آج بھی اندرون بلوچستان اس کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں کہ یہاں مختلف مذاہب، فرقے اور زبان کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں ،یہ احترام کا رشتہ ہے جو بلوچ سر زمین کی خوبصورت کلچر کی مثال کو پیش کرتا ہے۔
مگر ایک سازش کے تحت یہاں کی قدیم روایات کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف اقوام کے درمیان نفرتیں پیدا کی گئیں بلکہ شدت پسندی کو پروان چڑھایا گیا،جب عالمی طاقتوں نے اس خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے اور اپنی تھانیداری قائم کرنے کیلئے امن کو بہانہ بناکر مداخلت شروع کی ہے تب سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور وہ باقاعدہ اس پر سرمایہ کاری کرتے آرہے ہیں۔
عالمی امن کیلئے اس خطے کو بدامنی اور تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا ہے آج صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کا دارالخلافہ کوئٹہ بدترین دہشت گردی کا شکار ہے مگر یہ فیصلہ ہمارے حکمرانوں کو ہی کرنا ہے کہ کس طرح یہاں سے اس منفی کلچر کا خاتمہ کرتے ہوئے مداخلت کے راستے بند کردینے ہیں۔
سب سے پہلے اپنے ملک میں امن اور خوشحالی کو ترجیح دینا ضروری ہے کیونکہ سرد جنگ سے لیکر نائن الیون تک پاکستان عالمی برادری کے ساتھ امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے ان کے ہم قدم رہا مگر اس کے بدلے میں الزامات، بدامنی، معاشی بدحالی کے سوا اس کے حصے میں کچھ نہیں آیا حالانکہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی اور کے جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ۔
کیونکہ عالمی امن کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے بے تحاشہ قربانیاں دیں اوربہت سے نقصانات کا سامنا بھی کیا۔ بجائے یہ کہ پاکستان میں دنیا سرمایہ کاری کرتی مگرآج بھی امن و امان کی صورتحال کو بہانہ بنایا جارہا ہے ۔
سی پیک منصوبہ بھی ان کی آنکھوں میں کٹھک رہا ہے جسے سبوتاژ کرنے کیلئے یہاں بدامنی اور تفرقہ پھیلانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں سمیت تمام مکتبہ فکر کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس جنگ کو جیتنے کیلئے آپس کی جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے۔
کوئٹہ میں اس وقت دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ پاک افغان سرحدپر باڑ لگانے کے عمل میں تیزی لائی جائے جبکہ سیف سٹی پروجیکٹ جو عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہے اس پر بھی جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کیاجائے ۔
گزشتہ حکومت کے دوران بھی اس پروجیکٹ پر زور دیا گیا تھا مگر اب یہ موجودہ حکومت کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کو مکمل کرے تاکہ دہشت گردوں کی نقل وحرکت اور ان سے نمٹنے کیلئے بروقت مدد مل سکے۔
بلوچستان کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی تارکین وطن بھی ہیں جن کی جلد واپسی کیلئے اقدامات اٹھائیں جائیں اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو آگاہ کیاجائے کہ کس طرح مہاجرین کی موجودگی کی صورت میں بلوچستان کو مشکلات کا سامنا ہے جو نہ صرف بدامنی بلکہ سماجی اور معاشی حوالے سے ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ قیام امن کیلئے کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیاجائے وگرنہ صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔
بلوچستان میں بدامنی
وقتِ اشاعت : April 15 – 2019