|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2019

مجھے زندگی سے بیشمار شکایتیں تھیں کہ زندگی کتنی تلخ اور خراب ہے اور یہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں کرتی ہے کہ ہم سے ہی سب چھین لیتی ہے کبھی ہمارے اپنے اور کبھی ہماری خواہشیں۔ ہمارا پروجیکٹ تھا کہ ہمیں اداروں کا وزٹ کرنا ہے اور ان کے پیچھے کی کہانی کو ڈسکور کرنا ہے تو پروفیسرصاحب ہمیں نجانے کہاں لے آئے تھے جہاں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ہر طرح کے لوگ آ اور جا رہے تھے۔ ہم نے جو پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمھیں ان سے ملانے لایا ہوں زندگی جن سے ناراض ہے مگر وہ پھر بھی اسے راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

میں نا سمجھی کے عالم میں ان کے ساتھ اندر چل دیتی ہوں ،وہاں کچھ لوگ خون کے بیگ لیے ادھر ادھر جارہے تھے ،تو کہیں بچوں کے رونے اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں جو انتہائی پریشان کن تھیں توکہیں ماں باپ کے دلاسے سنائی دے رہے تھے۔ اتنے میں پروفیسر صاحب ہمیں لیے ایک وارڈ میں داخل ہوتے ہیں، جہاں قطار در قطار بیڈ تھے اور ان پر ہر عمر کے مریض جن کو خون لگایا جا رہا تھا، میں پریشان سی کمرے کے وسط میں کھڑی رہ جاتی ہوں اور میرے چاروں طرف مریض ہی مریض۔

پروفیسر صاحب اور باقی طالبعلم مجھے یونہی چھوڑ کر ان کے پاس جاتے ہیں اور ہر ایک کا حال احوال پوچھتے ہیں جس کا وہ سب بڑی خوشدلی سے جواب دیتے ہیں پھر کچھ دیر ان کے ساتھ گزارنے کے بعد ہمیں مختلف ڈیپارٹمنٹ میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں سب سے بات چیت کی جاتی ہے۔مجھے ان کے کسی فعل کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی۔ پھر جیسے ہی وزٹ کے بعد ہمیں ایک کمرے میں بیٹھایا جاتا ہے تو بیٹھتے ہی میں ان سے سوال شروع کر دیتی ہوں ہم یہاں کیوں آئے ہیں کہ اور وہ لوگ کون تھے اور کیا کررہے تھے۔

عمران خان (سندس فاونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو، جنہوں نے ہمیں سندس کا وزٹ کروایا) پیچھے لگے سندس فاونڈیشن کے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں یہاں زندگی دی جاتی ہے انہیں جو زندگی میں ترستے ہیں زندگی کے لیے۔اور بتاتے ہیں کہ سندس فاونڈیشن کا آغاز 1998ء کو تھیلیسیمیا کی ایک مریضہ سندس کے نام سے گوجرانوالہ میں یاسین خان اور حاجی سرفراز (جن کی بیٹی سندس تھی)کی کاوشوں سے ہوا،یہ ادارہ اکیس سال سے تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر میں مبتلا مریض بچوں کی امداد کررہا ہے۔ 

یہ ادارہ پنجاب کے 5 شہروں جیسا کہ لاہور، گوجرانوالہ ، گجرات ، سیالکوٹ اور فیصل آباد سے خون کے عطیات اکٹھا کرنے والا پنجاب کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اب یہ خون دور دور کے علاقوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے جیسا کہ آزاد کشمیر، ڈیرہ غازی خان وغیرہ سے اور اسے با حفاظت سندس پہنچایا جاتا ہے جہاں مریضوں کو مہیا کیے جاتے ہیں۔سندس فاونڈیشن گجرات کی بنیاد 2008 میں عمران خان کی انتھک کوششوں سے رکھی گئی جنہیں بسوں کے دھکے کھاتی گوجرانوالہ جاتی بہن کی فریاد نے جھنجھوڑ دیا تھا۔

اس میں ان کی مدد سندس کے والد حاجی سرفراز، محمود الٰہی، جی ایف فین والے ،یعقوب سیٹھی ، حاجی اکرم ، ندیم ملک صاحب، مس خان ،طارق رشید صاحب اور ان کی ٹیم نے کی اور ان کا بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے ایک کرایے کے گھر سے، 30000 ہزار کے کرایے سے اس کی بنیاد رکھی اب ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو خون کے عطیات مل رہے ہیں اور بہترین ماحول قائم برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ سندس فاونڈیشن کیلیے زمین لینے میں رضوان امجد صاحب اور انکی فیملی کا جہاں اہم کردار ہے وہیں سروس انڈسٹری نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ 

سندس فاونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو عمران خان کا کہنا تھا کہ کبھی سوچا نہیں تھا یہ ممکن ہوگا مگر نیت سچی ہو لگن پکی ہو تو راستے خودبخود بن جاتے ہیں اور ہمارے لیے تو مایوسی کفر ہے۔اگر آپ کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اس میں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے۔یہاں گجرات میں سندس فاونڈیشن وہ واحد ادارہ ہے جو تھیلیسیمیا کے سیکڑوں لوگوں کا علاج کرتا ہے اور لوگ یہاں کئی میلوں کا فاصلے طے کر نے کے بعد آتے ہیں۔وہاں وارڈ میں جو پہلا بیڈ تھا وہ لوگ آزاد کشمیر سے کئی سالوں سے اپنے بچے کے لئے آ رہے ہیں اور وہ خاتون جو اپنی بچی کو چپ کرا رہی تھی اس کی بچی کو چار ماہ کی عمر سے خون لگایا جا رہا ہے اور ابھی وہ صرف دو سال کی ہے، اس کی ماں کی بھی خواہش ہے کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر بڑی افسر یا ڈاکٹر بنے۔یہ سب لوگ زندگی کی امید لیے یہاں آتے ہیں تاکہ وہ بھی اچھی زندگی گزار سکیں۔

تھیلیسیمیا خون کی بیماری ہے جو خون میں موجودہ ہیموگلوبن میں نقص کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خون میں موجود سرخ خلیے جسم کے مختلف حصوں کو آکسیجن نہیں پہنچا پاتے اور مریض کمزوری کی وجہ سے دوسرے صحت مند افراد کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے ، ہیموفیلیا بھی تھیلیسیمیا کی طرح موروثی بیماری ہے ، اس میں مریض کا زخم لگنے کے بعد خون نہیں رکتااور خون زیادہ بہنے کی وجہ سے موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور بلڈ کینسر کے 6,000مریضوں کو علاج مہیا کیا جا چکا ہے۔ 

سندس فاؤنڈیشن میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون کے سرخ خلیے ( cells blood Red ) فراہم کیے جاتے ہیں اور ہیموفیلیا کے افراد کو خون کا سفید حصہ جو زخم میں خون کو روکنے میں معاون کردار ادا کرتے ہیں اور یہ سب بلامعاوضہ فراہم کیا جاتا ہے اور یہ ادارہ ہر سال سیکڑوں صحت مند خواتین و حضرات سے ہزاروں خون کی بوتلیں جمع کرتا ہے اور یہ خون مریضوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ 

اسی طرح انہیں مفت ادوایات کی فراہمی بھی کرتا ہے تاکہ ٹرانسفیوژن کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا سدباب ہو سکے اور ان سب عوامل پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ مختلف وائرسز سے متاثرہ بچوں کی نہ صرف پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کی جاتی ہے بلکہ علاج میں بھی مدد فراہم کی جاتی ہے تاکہ بیماری کا ممکنہ سدباب ہو سکے۔ یہ ادارہ لوگوں کی امداد کے سہارے چلتا ہے اور پھل پھول بھی رہا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس قوم میں حوصلوں اور جذبوں کی کمی نہیں ہے۔

یہ بڑی غیرت مند قوم ہے جس نے اپنی قوم کی ہمیشہ برے حالات میں مدد کی ہے۔ یہ ادارہ اب تک 6,000 مریضوں کا مفت علاج کر چکا ہے۔اور جو خون لیا اور دیا جاتا ہے اسے پہلے تکنیکی طور پر اچھی طرح سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے جسے بہترین مشینوں اور تجربہ کار افراد کی نگرانی سے گزار کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ گجرات سندس لیبارٹری کے سپروائزر طارق محمود کا کہنا ہے کہ یونہی کسی سے خون نہیں لیا جاتا ،پہلے افراد کی جسمانی صورتحال کا اندازہ لگایا جاتا ہے جس میں اسکے وزن اور پچھلے جسمانی ریکارڈ کی جانچ کی جاتی ہے اور پھر ٹیسٹ کے ذریعے پتا لگا جاتا کہ اس شخص کو کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو پھیل سکتی ہے اور وہ اس قابل ہے کہ خون دے سکے۔ ان سب تحقیقات کے بعد خون لیا جاتا ہے اور اسی طرح لیے ہوئے خون کو کئی طرح کے ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے اور جانچا جاتا ہے پھر ضرورت مند شخص کو دیا جاتا ہے۔ 

جیسا کہ تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا موروثی بیماریاں ہیں جو صرف شادی سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے رک سکتی ہیں۔ 2000 میں منوبھائی نے بطور چیئرمین سندس فاؤنڈیشن میں اپنا ایک منصوبہ SUNMAC شروع کیا جسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی خوب سراہا ، جو نوجوان نسل کو شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں تھیلیسیمیا کا شکار نہ ہو پائیں۔ اور آج سندس فاؤنڈیشن پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ کے لیے اپنے خدمات فراہم کررہا ہے اور ابھی تو وہ ہسپتال بنانے کا خواب دے کر گئے ہیں جس کی تعبیر کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کر نا ہو گا تاکہ کوئی علاج سے محروم نہ رہ سکے۔

پروفیسر صاحب کہنے لگے جانتے ہیں وہ جو لوگ اندر بیڈوں پر لیتے ہیں وہ کتنی مشکلوں اور تکلیفوں کے بعد یہاں زندگی کی آس لیے آتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہیں یہ سہولت مل رہی ہے۔ اس گفتگو نے مجھے اندر سے ہلا دیا تھا اور میں اپنی ناشکری پر بڑا نادم تھا کہ مجھے اللہ نے صحت مند ،تندرست بنایا اور میں اس کا شکرادا کرنے کی بجائے اس کی ناشکری کرتی ہوں اور یہ لوگ ہیں کہ ہر حال میں اپنے رب کے شکر گزار ہیں۔ 

پروفیسر صاحب مزید گویا ہوئے ؛ بیٹا اللہ نے یہ جو تمھیں صحت اور دیگر نعمتیں عطا کی ہیں یہ اس لیے ہیں تاکہ تم ان سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ان بہن بھائیوں مدد کرو جو اس سے محروم ہیں مگر ہم لوگ تو اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں اتنا الجھ جاتے ہیں کہ ارد گرد سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں ان لوگوں کو جن کی مشکلیں اور آزمائشیں ہم سے کئی گنا بڑی ہیں۔

پروفیسر صاحب ہم کیسے ان کی مدد کر سکتے ہیں ہماری ایک کولیگ گویا ہوئی ؟ دیکھو بیٹا جیسے سندس فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے کام کرتی ہے، ہم ان کی مدد کر کے ایسے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں کیونکہ اتنے بڑے ادارے کو چلانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ اس میں ہم سب کی مدد درکار ہے تاکہ کسی کو بھی علاج نہ ملنے کی وجہ سے زندگی سے ناراض نہ ہونا پڑے۔ نوجوان طبقہ فنڈز اکٹھے کر کے اور اپنے خون کے عطیات کے ذریعے مدد کر سکتے ہیں اور صاحب حیثیت لوگ اپنے صدقات و عطیات کے ذریعے تاکہ کسی کو بھی زندگی میں زندگی کے لیے ترسنا نا پڑے۔

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنو ں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔