گزشتہ چند روز سے یہ خبر گردش میں تھی کہ وفاقی کابینہ میں ردوبدل کے حوالے سے سوچ وبچار کیاجارہا ہے مگر حکومت کی جانب سے ان اطلاعات کی تردیدآتی رہی ہے لیکن اب وزیر خزانہ اسد عمر کے مستعفی ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے جس کے بعد کابینہ میں مزید ردوبدل ممکن ہے۔
اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد ملکی معیشت میں کیا واقعی کوئی تبدیلی آسکتی ہے، اس کے امکانات محدود ہیں کیونکہ اس وقت ملک شدید بحرانات کا شکار ہے، قرضوں کی مد میں روزانہ 6 ارب روپے کے قریب ادا کیاجارہا ہے جس کے برائے راست اثرات معمولات زندگی پر پڑرہے ہیں، عوام ٹیکس کی مد میں اس بوجھ کو اٹھارہی ہے ۔پی ٹی آئی حکومت کا مؤقف ہے کہ سابقہ پالیسیوں کی وجہ سے معاشی صورتحال ابتر ہے اتنے قرض لئے گئے ہیں کہ حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑرہے ہیں اگر بری حالت میں معیشت نہیں ملتی تو اس طرح کے فیصلے نہیں کئے جاتے ،عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہیں ڈالاجاتا۔ بہرحال ماضی کی حکومتوں نے معیشت کی بہتری کیلئے جو قرض اٹھائے تھے موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینامسائل کو کم نہیں بلکہ بڑھا دیتا ہے۔
بہرحال وقت کا تقاضہ ہے کہ ملکی وسائل اور برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر لابنگ کرتے ہوئے دیگرممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیاجائے تبھی صورتحال میں بہتری آئے گی ،کسی وزیر کے مستعفی ہونے یا کابینہ میں ردوبدل سے تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسد عمر نے مستعفی ہونے کے بعد پریس کانفرنس کے دوران برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم کابینہ میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں،آئندہ بجٹ میں حکومت کو مشکل فیصلے کرنے ہونگے۔
عمران خان خود چاہتے تھے کہ میں وزارت خزانہ چھوڑ کر وزارت توانائی سنبھالوں۔ میں نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ہمیشہ کچھ کرنے کی کوشش کی، ہمیں معیشت خراب حالت میں ملی تھی آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کے قرض کے اثرات پڑیں گے، اب جو شخص آئے گا وہ آئی ایم ایف پلان پر عمل کرے گا۔آنے والا بجٹ بہت مشکل ہو گا اور حکومت کو انتہائی مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، نیا وزیر خزانہ مشکل حالات میں وزارت سنبھالے گا۔ نئے وزیر خزانہ سے کوئی یہ امید نہ رکھے کہ تین مہینے میں بہتری آئی گی۔
اسد عمر نے ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا جب ملکی معیشت شدید بحران کا شکار ہے اور پاکستان آئی ایم ایف سے ان کی عائدشرائط پر قرض لینے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے شرائط کے ماننے کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے عام آدمی کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا جو اس نے پی ٹی آئی حکومت سے باندھ رکھے ہیں جو تبدیلی حکومت کی غیر مقبولیت میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔
اس لئے معاشی پالیسی کا ازسرنوجائزہ لیتے ہوئے اصلاحات لانے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کیلئے تمام چینلز کو استعمال کیاجائے تاکہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے بحرانات سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب قابلیت کے معیار کو ترجیح دی جائے بجائے یہ کہ من پسند افراد کو وزارتیں سونپ کر مزید مشکلات بڑھائی جائیں ۔ کابینہ میں ردوبدل مسئلے کا حل نہیں بلکہ معاشی حوالے سے آزاد فیصلوں کی ضرورت ہے اور اس کیلئے عالمی سطح پر تعلقات کو بڑھانے پر غور کیاجائے۔
وفاقی کابینہ میں ردوبدل اور معاشی صورتحال
وقتِ اشاعت : April 19 – 2019