لاگوس: نائجیریا کے ایک اسکول سے بڑی تعداد میں اغوا کی گئی لڑکیوں کو جبراً انتہاپسند اغوا کاروں سے شادی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
بدھ کو سول سوسائٹی کی جاری ایک رپورٹ کے مطابق والدین نے بتایا کہ لڑکیوں کو بوکو حرام کے شدت پسندوں سے شادی کے لیے 2 ہزار نائرا(12 امریکی ڈالر) کے عوض فروخت کیا جا رہا ہے۔
بورنو یوبے پیپلز فورم کے ہلیٹ الیو نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ والدین کو بڑے پیمانے پر شادی کی یہ اطلاع کیمرون کی سرحد سے نائیجیرین گاؤں کے افراد سے موصول ہوئی جو بوکو حرام کے کے ٹھکانے کے لیے مشہور ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کو سرحد پار چاڈ اور کیمرون لے جایا جا چکا ہے تاہم ان رپورٹس کی تصدیق ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل دہشت گردی کے افریقی نیٹ ورک بوکو حرام نے شمال مشرقی علاقے کے ایک اسکول سے 200 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کر لیا تھا۔
بی بی سی کی ہوسا سروس کے مطابق چتبک کے علاقے(جہاں سے لڑکیوں کو اغوا کیا گیا) کی کمیونٹی کے رہنما پوگو بترس نے بتایا کہ ان میں سے کچھ لڑکیوں کی شدت پسندوں سے شادی ہو چکی ہے، یہ قرون وسطیٰ کی غلامی کی ایک قسم ہے جہاں عورتوں کو پکڑنے کے بعد ان کو بیچ دیتے ہیں۔
ان لڑکیوں کو بازیاب کرانے میں ناکامی پر بدھ کو دارلحکومت ابوجا میں قومی اسمبلی تک درجنوں افراد نے مارچ کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اورحکومت سے لڑکیوں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
بدھ کو اس سلسلے میں مزید بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی حکومتی ناکامی پر مشتعل افراد نے حکومت مخالف مہم شروع کر رکھی ہے۔
ایک وفاقی سیکریٹری نے کہا کہ فوج کو اغوا کاروں اور لڑکیوں کی نقل و حرکت کا مکمل علم ہے کیونکہ ہم انہیں روزانہ کی بنیاد پر موصولہ اطلاعات سے مکمل باخبر رکھے ہوئے ہیں۔
سینیٹر احمد زنا نے کہا کہ مجھے یہ چیز سب سے زیادہ پریشان کررہی ہے کہ جب بھی فوج کو لڑکیوں کے مقام کے حوالے سے اطلاع فراہم کی جاتی ہے، دو سے تین کے بعد وہ اپنی جگہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ پھر مجھے واپس جا کرنئی معلومات لے کر انہیں پیشرفت سے آگاہ کرنا پڑتا ہے۔
احمد نے کہا کہ کچھ لڑکیاں نائیجریا سے 15 کلو میٹر دور کیمرون کے علاقے کولوفاٹا میں ہیں۔ ایک شدت پسند نے ریاست بورنو میں اپنے دوست کو کال کر کے بتایا کہ اس کی ابھی شادی ہوئی ہے اور وہ کولوفاٹا میں رہائش پذیر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تین سے چار دن قبل نائیجیریا کے چرواہوں نے چاڈ کی جھیل میں چند لڑکیوں کشتی پر لیجاتے ہوئے دیکھا تھا۔
ایک اور سینیٹر کے مطابق حکومت کو لڑکیوں کو بچانے کے لیے عالمی امداد طلب کرنی چاہیے۔
‘جتنا وقت لگے گا لڑکیوں کی واپسی اتنی ہی مشکل ہو گی اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ لڑکیوں کے اہل خانہ مزید وہشت کا شکار ہوں گے’۔
چیبوک گرلز سیکنڈری اسکول کے پرنسپل اسابے کوام بورا کے مطابق 50 کے قریب لڑکیاں اغوا کاروں کے چنگل سے نکلنے مین کامیاب ہو گئی تھیں لیکن ابھی بھی 220 ان کی قید میں موجود ہیں۔
سولہا سے اٹھارہ سال کی عمر کی ان لڑکیوں کو فزکس کا پرچہ حل کرنے کے لیے اسکول طلب کیا گیا تھا۔