|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2019

طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر منسوخ کر دیئے گئے۔افغان میڈیا نے صدارتی حکام کے حوالے سے بتایا کہ قطری حکومت نے افغان نمائندوں کی فہرست کو مسترد کر کے نئی فہرست بھیجی ہے جس میں افغانستان کے تمام شعبوں کی نمائندگی نہ ہونے پر افغان حکومت نے فہرست مسترد کردی۔افغان حکام کے مطابق قطری حکومت کا اقدام قابل قبول نہیں، قطر 250 افغان نمائندوں کو آنے کی اجازت دے۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے مطالبات تسلیم نہ کرنے تک دوحہ مذاکرات منسوخ کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان ملاقات 20 اور 21 اپریل کو قطر میں ہونا تھے اور مذاکرات کیلئے افغان حکومت نے 250 رکنی فہرست تیار کی تھی۔

افغان حکومت کی مذاکرات کیلئے تیار کی گئی فہرست پر طالبان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شادی یا کسی اور مناسبت سے دعوت اور مہمان نوازی کی تقریب نہیں کہ کابل انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کیلئے 250 افراد کی فہرست جاری کی ہے جس کے بعد طالبان نے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیاہے۔واضح رہے کہ مذاکرات 19 سے 21 اپریل تک قطر میں ہونا تھے جن میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق امور پر بات کی جانی تھی۔

دوسری جانب امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہاہے کہ قطر میں امن مذاکرات میں تاخیر پر مایوسی ہوئی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا ہے کہ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور حوصلہ افزائی کریں گے کہ سب بات چیت کے عمل پر قائم رہیں۔ بات چیت ہی سیاسی روڈ میپ اور دیرپا امن کا راستہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے علاوہ اور کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔ 

میں درخواست کرتا ہوں کہ افغان شرکاء کی فہرست کو قبول کر کے آگے بڑھیں۔ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہوئی تو ہم تیار ہیں۔اس سے قبل خبر آئی تھی کہ امریکہ، افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوحہ، قطر میں ہونے والے مذاکرات آخری لمحات میں منسوخ کردیے گئے ہیں۔

اب تک قطر میں جاری افغان امن عمل کے حوالے سے مذاکرات میں کوئی خاص پیشرفت تو نہیں ہوئی ہے مگر یہی ایک فورم ہے جس سے بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں کہ فریقین اس فورم کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں اور کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک اچھا عمل نہیں کہ مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ اس کے بعد پھر بدامنی کے خطرات کو رد نہیں کیا جاسکتا جس کے اثرات پورے خطے پر پڑینگے۔ 

افغانستان دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے جس سے افغان باشندے شدید متاثر ہوکر رہ گئے ہیں لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے اپنی سرزمین چھوڑ کر دیگر ممالک میں مہاجرین کی زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ افغان جنگ کی وجہ سے آج بھی پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہے ۔ افغانستان کامسئلہ حل کرنے کیلئے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس جنگ سے انسانی بحران جنم لے رہاہے اور امن وامان کے حوالے سے صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ 

فریقین کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے تمام ثالث ممالک کو اس اہم موڑ پر کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ قطر میں جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوسکیں جس سے افغانستان میں امن لوٹ آئے گا اوراس کے ساتھ پورے خطے کی صورتحال میں بھی تبدیلی آئے گی۔