ہمارے ہاں معمول بن چکا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، قیمتوں میں یہ اضافہ کون کرتا ہے،اس کا ذمہ دار کون ہے، اس کا اب تک تعین نہیں کیا گیا۔رمضان کے مہینے کو منافع کا مہینہ تصور کیا جاتا ہے، اس میں آڑھت، دکانداراور تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ محدود آمدنی والے طبقے کے لیے رمضان اور عید خوفناک ایام اور تہواروں کا روپ دھار چکے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کی شرح مہنگائی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
ایسے میں کوئی حکومتی کردارنظر نہیں آتا کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرے، لے دے کے ایک رمضان پیکج بذریعہ یوٹیلٹی سٹور دیا جاتا ہے جس کا دائرہ کار چند بڑے شہروں تک محدود ہے اور جہاں اشیاء کا معیار بھی انتہائی ناقص ہے۔صوبائی سطح پر حکومت سستے بازاروں کے انعقاد کا اعلان تو کرتی ہے لیکن یہ سستے بازار سنسان ہی نظر آتے ہیں۔ اب وہ سستا بازار بھی فراڈ بن گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ افسران یا انتظامیہ اس میں خاص دلچسپی نہیں لیتے اور اس نے عوامی خدمت کا کردار یکسر ختم کردیا ہے۔
اس وجہ سے سستا بازار ناکام ہوگیا ہے اور لوگ روایتی بازار سے اشیاء مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کوئی مارکیٹ کمیٹی‘ سرکاری کمیٹی یاصارف کمیٹی موجود نہیں ہے جو قیمتوں میں اضافے کو روکے اور عوام کو سستی اور معیاری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
بلوچستان کے کسی بھی ضلع میں اس بات پر توجہ نہیں دی جارہی کہ عوام الناس کو معیاری اشیاء مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ اگر لوگ اس معاملے پر حکومت اور انتظامیہ پر تنقیدکرتے ہیں تو صرف اس کی وجہ موجودہ مہنگائی ہے جس کا مقابلہ عوام کرنے سے قاصر ہے،ایسے حالات میں ان کی تمام تر امیدیں حکومت سے وابستہ ہوجاتی ہیں کہ حکومتی سطح پر مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں، حکومت عوام کی خدمت زیادہ بہتر اندازمیں کرے۔
ویسے بھی ملکی معاشی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قیمت روز بروز کم ہورہی ہے، درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اسی مناسبت سے اضافہ بھی ہورہا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے۔ انٹر سٹی بس کے کرائے آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
بہرحال یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ روزمرہ کی ضروری اور کھانے پینے کی اشیاء کے دام ہر حال میں غریب لوگوں کی پہنچ میں رہنے دینے کا بندوبست کرے۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو لوٹ مار کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔
لوگوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس ماہ میں صرف ضرورت کی اشیاء خریدیں غیر ضروری چیزیں خریدنے سے گریز کریں۔رمضان کی آمد کو کچھ دن رہ گئے ہیں لہٰذا ہر ضلع میں انتظامیہ سستے بازار لگائے جہاں ضروری اشیاء خصوصاً غذائی اجناس سستے داموں فروخت کیے جائیں تاکہ عوام کو اس کا فائدہ ہو اور منافع خوروں کو زاہد قیمت کی وصولی سے روکا جائے بلکہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار کیا جائے اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں، یہ کام صرف مقامی انتظامیہ کرسکتی ہے۔
منافع خوری کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی کو ہر ضلع میں فعال کیا جائے تاکہ قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھی جائے۔ بہر حال قیمتوں میں کنٹرول کے ساتھ ساتھ معیاری اشیاء کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ صوبائی حکومت اور خصوصاً وزیراعلیٰ پر یہ لازم ہے کہ وہ انتظامیہ کو اس بارے میں ہدایات جاری کرے کہ وہ قیمتوں پر نگاہ رکھے اور رمضان کے ماہ میں کسی کو لوٹ مار کی اجازت نہ دے۔