|

وقتِ اشاعت :   May 4 – 2019

اسلام آباد:  ایوان بالا کو بتایا گیا ہے ملک میں زیر زمین پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوگئی ہے جبکہملک کے ڈیمز میں ریت بھر جانے کی وجہ سے پانی ذخٰیرہ کرنے کی صلاحیت میں بھی کمی ہورہی ہے،دیامر بھاشا ڈیم کے فنڈز میں اب تک 10ارب 40کروڑ روپے جمع ہوچکے ہیں،گذشتہ 10 سالوں کے دوران ملک بھر میں تیل اور گیس کے 160ذخائر دریافت ہوئے ہیں،بجلی چوری کی وجہ سے 3کروڑ 27لاکھ روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

جمعہ کے روز ایوان بالا میں وفقہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد کی مخصوص عدالتوں (انسداد دہشت گردی اول اور دوئم) میں کسی ملزم کو سزائے موت نہیں دی گئی۔جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے بتایا کہ اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔

سینیٹر چوہدری تنویر خان کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب نے کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران تیل و گیس کی دریافت کی کل تعداد 160 ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران تیل و گیس کی دریافت کی کل تعداد 160 ہے۔اس وقت جو آف شور ڈرلنگ ہو رہی ہے اس میں 48 ہزار میٹر تک ٹارگٹ ہے، یہ ہائی رسک ایکٹیویٹی ہے، یہ بہت بڑا رگ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تیل کا پنجاب سے فی دن 18 فیصد، سندھ سے 31 فیصد، کے پی کے سے 50 فیصد کا تناسب ہے۔ گیس میں پنجاب 3.8 فیصد، سندھ 64 فیصد سے زائد، بلوچستان 21 فیصد سے زائد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گیس زیادہ دریافت ہوتی ہے اور تیل کم، تیل و گیس خاص قسم کے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ اس کو نکالنا اربوں ڈالر کا کام ہے۔ کمپنیاں ایسی جگہوں کو ترجیح دیتی ہیں جہاں امکانات زیادہ نظر آتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے علاقوں میں تیل و گیس کی بجائے دیگر معدنیات کے زیادہ امکانات ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سندھ کے ساحلی علاقوں میں سمندر برد ہونے والی اراضی سے متعلق سوال متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سسی پلیجو نے کہا کہ وزارت آبی وسائل کی طرف سے سندھ کے مختلف ساحلی اضلاع میں اب تک سمندر برد ہونے کی وجہ سے ضائع ہونے والی زمین کی تفصیل سے متعلق سوال کا جواب فراہم نہیں کیا گیا۔

چیئرمین نے یہ سوال متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا اور کہا کہ وہاں سے اس کا تفصیلی جواب آ جائے گا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ اسپیشل اکنامک زونز کے لئے بات چیت ہو چکی ہے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر عثمان کاکڑ کے سوال کے جواب میں علی محمد خان نے کہا کہ بلوچستان میں بوستان معاشی زون میں شامل ہے۔

اس پر بلوچستان حکومت کی طرف سے فزیبلٹی رپورٹ آ گئی ہے جبکہ ایک لیٹر کا انتظار ہے جس کے بعد اس پر کام شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی زون کے بوستان سے لسبیلہ میں منتقل ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
چیئرمین نے ہدایت کی کہ بلوچستان حکومت سے اس بارے میں پوچھ کر ایوان کو آگاہ کریں کہ معاشی زون کو بوستان سے لسبیلہ منتقل تو نہیں کیا جا رہا ہے پاکستان میں پانی زخیرہ کرنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔

وزارت آبی وسائل کی جانب سے ایوان بالا کو تحریری جواب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں پانی کی سالانہ فی کس دستیابی کم ہو کر 908 کیوبک میٹر رہ گئی ہے1954 میں پاکستان میں سالانہ فی کس پانی کی دستیابی 5260 کیوبک میٹر تھی 2025 تک پانی کی دستیابی کم ہو کر 800 کیوبک میٹر رہ جانے کا خدشہ ہے ریت بھر جانے کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 4.965 ایم اے ایف کی کمی آ چکی ہے 2025 تک یہ صلاحیت 0.75 ایم ایے ایف رہ جانے کا خدشہ ہے۔

گذشتہ 68 سالوں 4352 کیوبک میٹر صلاحیت کم ہوگئی ہے وزارت کے مطابق دیا میر بھاشا مہمند ڈیم فنڈ میں اب تک 10 ارب 40 کروڑ روپے کی رقم جمع کی گئی ہے وزارت توانائی کی جانب سے ایوان بالا کو تحریری جواب میں بتایا گیا کہ گذشتہ دس برسوں کی دوران ملک میں تیل اور گیس کے 160 ذخائر دریافت کیے گئے ہیں سندھ میں 131، پنجاب میں 13، بلوچستان میں 3 اور خیبر پختونخوا میں 13 ذخائر دریافت کیے گئے ہیں۔

وزارت توانائی نے بجلی چوری سے نقصانات اور کارروائیوں کی تفصیلات ایوان میں پیش کر دی گئی ہیں جس کے مطابق ملک بھر میں بجلی چوری سے قومی خزانے کو 3 کروڑ 27 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے بجلی چوری میں ملوث 219 ملازمین کے خلاف کارروائیاں کی گئیں ہیں۔

بجلی چوری میں پیپکو ملازمین سب سے آگے ہیں پیسکو کے 72 ملازمین بجلی چوری میں ملوث نکل آئے ہیں پیسکو بجلی چوری کے نقصانات کا تخمینہ لگانے میں ناکام ہیں میپکو کے 40 اور فیسکو کے 32 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں گیپکو کے 18 اور لیسکو کے 27 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔

ہیسکو کے 16 اور سپکو کے 24 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں آئیسکو کا بجلی چوری کے باعث نقصانات پر قابو پانے کا دعوی کیا گیا ہے آئیسکو کے 28 ملازمین بجلی چوری میں ملوث پائے گئے ہیں آئیسکو کو چوری کی مد میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے قیسکو کے 23 اور ٹیسکو کے 11 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔