|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2019

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک میں بعض مدارس سیاسی وجوہات کی بناء پر قائم ہوئے۔روس کے خلاف جنگ کے دوران ہزاروں مدارس سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے۔ اس میں امریکی اور عرب ممالک کی زبردست مالی امداد شامل تھی۔ بلوچستان جیسے غریب اور اس کے دور افتادہ علاقوں میں شاندار عمارتیں مدارس اور انکے ہاسٹل کے نام پر مہینوں میں قائم کی گئیں۔اس وقت کی حکومت اور امریکا کو یہ یقین تھا کہ اشتراکیت کو روکنے کے لئے دینی مدارس ضروری ہیں۔

امریکا کی سرپرستی میں مدارس کا زیادہ بہتر استعمال یہ ہوا کہ وہاں سے مجاہدین بھرتی کیے گئے،ان کے ہاسٹل دہشت گردی یا گوریلا جنگ کی تربیت کے لئے استعمال کیے گئے۔ جب روس اچانک افغانستان سے نکل گیا خصوصاً اس خوش فہمی کے بعد کہ افغان کی فوج اور حکومت اتنی طاقتور ہے کہ وہ اپنا دفاع خود کر سکتی ہے۔روس کا یہ فیصلہ صرف خوش فہمی ثابت ہوا اور روس نواز حکومت کو اس وقت شکست ہوگئی جب شمالی اتحاد نے حکومت کی حمایت ختم کردی اور جنرل دوستم کے دس لاکھ سے زیادہ رضا کار وں نے کابل حکومت کا دفاع نہیں کیا اور مجاہدین حکومت پر قابض ہوگئے۔

روس نواز حکومت اقتدار سے بے دخل ہوگئی اس کے بعد امریکا اور عرب ممالک نے اپنی حمایت واپس لے لی لیکن مدارس کی اہمیت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ امریکی اور عرب ممالک سے امداد بند ہوگئی لیکن جہاد کے نام پر دوسرے ذرائع نے مدارس کو فنڈ جاری کرنا شروع کیا۔

حیرانگی کی بات ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اربوں روپے سالانہ ان سرکاری اسکولوں پر خرچ کررہی ہیں اور پوری ریاست اور ریاستی مشینری ان اسکولوں کی پشت پر ہے مگر آج تک ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔مدارس جن کے ذرائع آمدن آج تک نا معلوم ہیں وہاں تعلیم‘ رہن سہن اور کھانے پینے کی بہتر سہولیات دستیاب ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی اتنی بڑی آمدن کہاں سے ہوتی ہے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام معاملات حکومت اپنے ہاتھ میں لے، بعض سیاسی پارٹیاں مدارس چلا رہی ہیں وہ مدارس ان پارٹیوں کے لئے کارکن پیدا کررہے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب مدارس کی دوبارہ رجسٹریشن کرنے کی بھی مخالفت کی جارہی ہے ظاہر ہے کہ ان کے مفادات وابستہ ہیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی نہ کی جاسکے اور نہ یہ معلوم ہوکہ ان مدارس کے آمدنی کے ذرائع کیا ہیں کیا وہ قانونی ہیں یا ان کے پیچھے کچھ اور مقاصد کار فرما ہیں۔ ملک بھر کے تمام مدارس‘ اسکولوں اور تعلیمی ادارے حکومت کے ماتحت ہونے چاہئیں تاکہ ملک میں صرف اور صرف ایک نظام تعلیم ہو، ان میں عربی اور انگریزی اسکول کی تفریق نہ ہو اچھی اور معیاری تعلیم ہر طالب علم کا بنیادی حق ہے حکومت یہ حق فوری طورپر تسلیم کرے اور تمام تعلیمی ادارے، سوائے اقلیتوں کے اسکولوں کے، سرکاری تحویل میں لیے جائیں۔

جتنی سہولیات طلباء کو حاصل ہیں ان میں کمی نہ کی جائے بلکہ اضافہ کیا جائے۔خصوصاً مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو تعلیمی ادارے اور مدارس چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ تعلیم کے زیور سے ہر طالب علم کو آراستہ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست اپنی یہ ذمہ داری پوری کرے اور تمام مدارس اور تعلیمی اداروں کوحکومت کے ماتحت چلائے۔ مشینری اسکول صدی سے زیادہ عرصہ سے کام کررہے ہیں۔

ان کے خلاف کوئی شکایات نہیں ہیں لہٰذا روایتی اور قدیم مشینری اسکولوں کی انتظامیہ کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ ان تعلیمی اداروں سے لاکھوں طلباء فیضاب ہوئے ہیں اور ان کو کبھی کوئی شکایت نہیں رہی اس لئے انکو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ریاست اس معاملے کوسنجیدگی سے لے،تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور ریاست اچھی اور معیاری تعلیم ہر طالب علم کوبغیر کسی امتیاز کے فراہم کرے۔